دیے جو کر دیے گل عہد شب میں رہتے ہوئے

دیے جو کر دیے گل عہد شب میں رہتے ہوئے
یہ احتجاج تھا حد ادب میں رہتے ہوئے


ہر ایک بات پہ اشک ہر نئی سحر سے گریز
برس گزر گئے کیوں اور کب میں رہتے ہوئے


وہ لوگ کون تھے کس آب و گل کا پیکر تھے
جو پھول جیسے تھے دشت غضب میں رہتے ہوئے


گزشتگان محبت سے کچھ ہنر لے کر
جدا سبھی سے رہے اور سب میں رہتے ہوئے


کبھی جو یاد مجھے آ گیا مرا بچپن
تو آنکھ نم ہوئی بزم طرب میں رہتے ہوئے


میں اپنی ذات کی پہچان تک گنوا بیٹھا
خیال عزت نام و نسب میں رہتے ہوئے


حدیث دل بھی تو میں لکھ نہیں سکا اشفاقؔ
ہجوم حلقۂ شعر و ادب میں رہتے ہوئے