دن رات اس کے ہجر کا دیمک لگے لگے

دن رات اس کے ہجر کا دیمک لگے لگے
دل کے تمام خانے مجھے کھوکھلے لگے


محفل میں نام اس کا پکارا گیا تھا اور
سب لوگ تھے کہ میری طرف دیکھنے لگے


افسوس فکر جاں ہی نہیں رہتی ہے ہمیں
افسوس آپ جان ہمیں ماننے لگے


جو کہتے تھے کوئی تجھے ٹھکرا نہ پائے گا
جب بات خود پہ آئی تو وہ سوچنے لگے


میں آج تک نہ ٹھیک سے خود کو سمجھ سکا
اک ہی دفعہ میں آپ مجھے جاننے لگے