دل مرا جب تک کسی کے حسن پر مائل نہ تھا
دل مرا جب تک کسی کے حسن پر مائل نہ تھا
زندگی میں زندگی کا لطف کچھ حاصل نہ تھا
میرے حصے کا کوئی ساغر سر محفل نہ تھا
تیرے مے نوشوں میں ساقی کیا میں اس قابل نہ تھا
جاں بہ لب محفل میں ان کی میں نہ تھا یا دل نہ تھا
کون تھا جو ان کے تیر ناز کا گھائل نہ تھا
اک نظر ملتے ہی ان کا ہو گیا کیا قہر ہے
جس کو ہم سمجھتے تھے اپنا دل وہ اپنا دل نہ تھا
بحر الفت کی تلاطم خیز طغیانی نہ پوچھ
ہر طرف طوفان ہی طوفان ہے ساحل نہ تھا
ناامیدی درد و غم رنج و مصیبت کے سوا
چاہنے والوں کو ان کے اور کچھ حاصل نہ تھا
اک اشارے پر بہایا خون پانی کی طرح
ان کے جاں بازوں میں کوئی مجھ سا دریا دل نہ تھا
سہل کر دی زندگی ان کی امید دید نے
ورنہ ان کے ہجر میں مرنا کوئی مشکل نہ تھا
آہ صابرؔ جب ہوا میرا سفینہ غرق آب
میں تھا مجبوری تھی اور کوئی لب ساحل نہ تھا