دل میں رہے وہ شخص رگوں میں رواں نہ ہو
دل میں رہے وہ شخص رگوں میں رواں نہ ہو
میں چاہتا ہوں زخم جگر کا نشاں نہ ہو
دستک سنی تو روح کی چیخیں نکل گئیں
جیسے کوئی بدن میں جہاں تھا وہاں نہ ہو
اک عمر ہو کہ جس میں میسر ہوں سگرٹیں
اک دوستی ہو جس میں یہ سود و زیاں نہ ہو
اک خوش کلام پوچھے تمہیں چاہیے سکوں
اک خوش کلام پوچھے مگر مجھ سے ہاں نہ ہو
میں چاہتا ہوں ایک ہو بس ایک ہم سفر
ایسا جو میرے دل کی طرح بد زباں نہ ہو