دل خوں ہے دل کا حال رقم ہو تو کس طرح
دل خوں ہے دل کا حال رقم ہو تو کس طرح
دل سے قلم کا فاصلہ کم ہو تو کس طرح
دل ہے کہیں دماغ کہیں اور ہم کہیں
شیرازۂ حیات بہم ہو تو کس طرح
کیوں کہیں کہ درد نہیں حاصل حیات
پیش نظر جو ہے وہ عدم ہو تو کس طرح
دل سے زباں زباں سے چھنی طاقت سخن
مائل ادھر مزاج صنم ہو تو کس طرح
دل کش بہت ہے ترک تعلق کا مشورہ
خود پر مگر یہ طرفہ ستم ہو تو کس طرح
میں اور میرے گرد یہ تنہائی سقر
اے دل علاج سوز الم ہو تو کس طرح
کیوں ضد ہے شہر یار کو اے عرشؔ اس قدر
یہ سر کہ وقف دار ہے خم ہو تو کس طرح