دل جو مردہ ہو تو یہ رشک جناں کچھ بھی نہیں

دل جو مردہ ہو تو یہ رشک جناں کچھ بھی نہیں
لالہ ہو سبزہ ہو یا آب رواں کچھ بھی نہیں


یہ دہکتے ہوئے غنچے یہ سلگتے ہوئے دل
ہر طرف سوز دروں حرف زباں کچھ بھی نہیں


پیارے دامن سے جدا ہو گئے میں نے دیکھا
حسرتیں بولیں میاں عمر رواں کچھ بھی نہیں


لفظ و معنی میں جو رشتہ ہے وہ بنیادی ہے
صرف الفاظ کا اک سیل رواں کچھ بھی نہیں


کردہ نا کردہ گناہوں میں کٹی عمر عزیز
لوگ کہتے ہیں زیاں ورنہ زیاں کچھ بھی نہیں


بارش سنگ ہو شیشے کی کمیں گاہوں سے
کیسے فرزانے ہو شیشے کا مکاں کچھ بھی نہیں


خواب سے خواب میں اک عمر گرفتار رہا
اب کھلا خواب بجز وہم و گماں کچھ بھی نہیں