دل فسردہ یہ کسی کا نہیں دیکھا جاتا

دل فسردہ یہ کسی کا نہیں دیکھا جاتا
آنکھ میں اشک کا دریا نہیں دیکھا جاتا


زندگی تیرا یقیں کیسے کروں میں آخر
تجھ سے اک شخص بھی ہنستا نہیں دیکھا جاتا


بے وفائی تو چلو ٹھیک ہے لیکن تیرے
سر تلے غیر کا شانا نہیں دیکھا جاتا


تجھ پہ الزام لگا سکتے ہیں لیکن ہم سے
تیرا دامن کبھی میلا نہیں دیکھا جاتا


مانگ بیٹھا وہ کھلونا تو میں دل دے آیا
طفل تو طفل ہے روتا نہیں دیکھا جاتا


چند ایسے بھی مسیحا ہیں میرے خطے میں
جن سے بیمار کو اچھا نہیں دیکھا جاتا


میں غم عشق سے آزاد ہوا چاہتا ہوں
اب تمناؤں کا لاشہ نہیں دیکھا جاتا


زخم پر زخم ہمیں جس نے دئے اے ساحلؔ
اس سے اب درد ہمارا نہیں دیکھا جاتا