درماندگوں کی آنکھ سے آنسو جو ڈھل گئے

درماندگوں کی آنکھ سے آنسو جو ڈھل گئے
چشمے کسی کے لطف و کرم کے ابل گئے


ڈالی جو اس نے ایک اچٹتی ہوئی نظر
خستہ دلان راہ محبت بہل گئے


ہم اور بارگاہ رسالت پناہ میں
مارے خوشی کے آنکھ سے آنسو نکل گئے


پہنچے جو ہم دیار مدینہ میں سر کے بل
سب اپنے اگلے پچھلے تصور بدل گئے


پھر ہم تھے اور روضۂ اقدس کی جالیاں
ارمان کیا بتاؤں کہ کیا کیا مچل گئے


قرب حضور دھونے لگا دل کے سب عیوب
باطل تصورات تھے جتنے پگھل گئے


نازاں ہے تہنیتؔ کرم کردگار پر
بہکے جو تھے نصیب وہ آخر سنبھل گئے