چمن میں گزری کہ صحرا کے درمیاں گزری

چمن میں گزری کہ صحرا کے درمیاں گزری
تمہاری یاد سے خالی مگر کہاں گزری


فسانہ عمر دو روزہ کا مختصر یہ ہے
حرم سے دور جو گزری بہت گراں گزری


حیات یوں تو گزر ہی گئی گزرنی تھی
تمہارے شوق میں لیکن نہ رائیگاں گزری


کھلا ہے غنچہ دل ہر غریب و بے کس کا
نسیم کوئے مدینہ جہاں جہاں گزری


اسے نصیب ہوئی نعمت ولائے نبی
جہاں سے تہنیتؔ اس طرح شادماں گزری