دامن تہیں کئے ہوئے سینہ ابھار کے

دامن تہیں کئے ہوئے سینہ ابھار کے
جاتا ہے کوئی قرض گلستاں اتار کے


پھولوں کا ہار رکھ دو گلے سے اتار کے
دن لد گئے گلوں کے اب آئے ہیں خار کے


خاموش ہو گیا کوئی آنکھیں پسار کے
لمحے ہوئے نہ ختم ترے انتظار کے


وہ کیا گئے کہ روح گلستاں نکل گئی
آئی نہیں خزاں کہ گئے دن بہار کے


ہر ایک گام پر یہ خبردار کئے ہیں
احسان ہیں یہ مجھ پہ غم بے شمار کے