چپکے سے

کل رات کہانی پریوں کی
باجی نے سنائی چپکے سے
پھر دھیرے دھیرے ہوا چلی
اور نندیا آئی چپکے سے
ہلکے تھے کہیں گہرے تھے کہیں
رنگوں کی وہ بارش دیکھی تھی
تھیں جس میں بہت سی تصویریں
ہم نے وہ نمائش دیکھی تھی
پھر سب سے چھپا کے ہم نے بھی
تصویر بنائی چپکے سے
فرصت جو ملی تو ہم یوں ہی
کچھ وقت بتانے بیٹھے تھے
گرمی کے دنوں میں ڈھولک پر
اک گیت سنانے بیٹھے تھے
مغرب کی طرف سے اتنے میں
بدلی بھی گھر آئی چپکے سے