چراغوں کے ساتھ جل رہی ہوں ہوا کے ہم راہ چل رہی ہوں
چراغوں کے ساتھ جل رہی ہوں ہوا کے ہم راہ چل رہی ہوں
یہی ہے حالات کا تقاضا مزاج اپنا بدل رہی ہوں
نہ کوئی در ہے نہ کوئی چھت ہے یہی مری اپنی سلطنت ہے
تمہارے سپنوں کی شاہزادی تمہاری آنکھوں میں پل رہی ہوں
خبر ہے کچھ مسکرانے والو مجھے نشانہ بنانے والو
ابھی تلک میں کمان میں تھی کمان سے اب نکل رہی ہوں
نہ کوئی دامن نہ کوئی سایہ کوئی تو ہو جو مجھے بلائے
میں دھوپ میں کل بھی جل رہی تھی میں دھوپ میں اب بھی جل رہی ہوں
نہ میں فرشتہ نہ پارسا ہوں میں اپنی مرضی کی مالکہ ہوں
سنبھل سنبھل کر بہک رہی ہوں بہک بہک کر سنبھل رہی ہوں
یہ چاہتی ہوں جہاں کا ہر غم ریحانہؔ دل میں سمیٹ لوں میں
وہ سنگ ہے تو رہے سلامت میں موم بن کر پگھل رہی ہوں