چند دیواریں کسی کو دیں کسی کو در دیے
چند دیواریں کسی کو دیں کسی کو در دیے
ہم نے اک چھوٹے سے گھر کے کتنے ٹکڑے کر دیے
بے ادب ننگی نگاہوں سے بچانے کے لئے
ہم نے معنی کو بدن الفاظ کو پیکر دیے
کیا حقیقت کی نمائش میری خاطر جرم تھی
تو نے جو آئینہ دیکھا اس کے ٹکڑے کر دیے
رو رہے ہو دیر سے شیشہ کی کرچیں دیکھ کر
تم نے کیوں اہل جنوں کے ہاتھ میں پتھر دیے
دوپہر کے بعد اس نے پھول جیسے ہاتھ سے
شام تک لوہے کی زنجیروں کے ٹکڑے کر دیے
دل کی گہرائی میں کیا ہے مجھ سے اے صولتؔ نہ پوچھ
جتنے دریا آنکھ سے نکلے سمندر کر دیے