چارہ سازی کا طلب گار لگے ہے وہ بھی

چارہ سازی کا طلب گار لگے ہے وہ بھی
اک مسیحا ہے سو بیمار لگے ہے وہ بھی


جس کی خاطر لی زمانے کی عداوت ہم نے
اب زمانے کا طرف دار لگے ہے وہ بھی


اب رگ جاں کو بچاؤں تو بچاؤں کیسے
سانس چلتی ہے تو تلوار لگے ہے وہ بھی


کس طرح منزلیں طے ہوں گی بدن کی اے دل
اس سے ملتا ہوں تو دیوار لگے ہے وہ بھی


بے مغیلاں سہی تپتے ہوئے صحرا کا سفر
پاؤں رکھتا ہوں مگر خار لگے ہے وہ بھی