چاندنی رات میں صندل سا بکھرتا سایہ
چاندنی رات میں صندل سا بکھرتا سایہ
ایک آسیب کی صورت نظر آیا سایہ
سر پہ سورج ہے مگر حشر کا میدان نہیں
جانے کیوں راہ میں قدموں سے ہے الجھا سایہ
فرد کی ذات میں نادیدہ نظارے کی طرح
سائے کے ساتھ ٹہلتا نظر آیا سایہ
یہ بھی وارفتگئ شوق میں ہوتا ہے گماں
ابھی آیا ہے مرے پاس مہکتا سایہ
یہ وہی لوگ ہیں جو دن میں تھے میرے جیسے
شام کے وقت نظر آتے ہیں سایہ سایہ
منجمد روشنی پھوٹی تھی کسی چادر سے
میں نے کل ابر سے چھنتا ہوا دیکھا سایہ
کل تک اس سایۂ دیوار میں دم ملتا تھا
زندگی لگتی ہے اب ایک کھنڈر کا سایہ