بریدہ گیسوؤں میں آنکھ کا رستہ نہیں تھا
بریدہ گیسوؤں میں آنکھ کا رستہ نہیں تھا
وہ چہرہ خوب صورت تھا مگر دیکھا نہیں تھا
میں جب ساحل پہ اترا خلق میری منتظر تھی
کئی دن ہو گئے تھے بادشاہ ملتا نہیں تھا
بلاتے تھے ہمیں انجیر اور زیتون کے پھل
مگر وادی میں جانے کا کوئی رستہ نہیں تھا
تنا یاقوت کا شاخیں زمرد کی بنی تھیں
ثمر لعل و گہر تھے نخل کا سایہ نہیں تھا
پروں میں آئنے منقار میں تاج شہی تھا
پرندہ قاف سے آیا مگر اڑتا نہیں تھا