برے انساں کو بد کاری کا محور کھینچ لیتا ہے
برے انساں کو بد کاری کا محور کھینچ لیتا ہے
کہ جیسے تیسے دریا کو سمندر کھینچ لیتا ہے
بھرے بازار میں اس شخص کو سنگسار کر دینا
گلے سے اپنی بیوی کے جو زیور کھینچ لیتا ہے
قدم میرے نکل پڑتے ہیں جب گمراہ رستوں پر
مجھے قرآن کی جانب ترا در کھینچ لیتا ہے
میں اپنے بیوی بچوں میں کہاں سے پیار بانٹوں گا
لہو میرے بدن کا جبکہ دفتر کھینچ لیتا ہے
مرے محبوب کی تحریر سے ہے کس قدر مانوس
خطوں کے ڈھیر سے وہ خط کبوتر کھینچ لیتا ہے
جہاں غربت بلکتی ہے جہاں معصوم روتے ہیں
مری غزلوں کا شہزادہ وہ منظر کھینچ لیتا ہے
جوانی تھی تو من مانی کا طوفاں تھا طبیعت میں
بڑھاپے میں قدم رکھا تو بستر کھینچ لیتا ہے
امینؔ احساس تیرا ڈوبتا ہے جب تخیل میں
سمندر کے کنارے ہی سے گوہر کھینچ لیتا ہے