بکھر گئے دل برباد کا پتہ نہ چلا
بکھر گئے دل برباد کا پتہ نہ چلا
اتھاہ رنج کی میعاد کا پتہ نہ چلا
عمل شبیہ سے تھا کس طرح جداگانہ
ابھی تلک مرے ہم زاد کا پتہ نہ چلا
تمام شہر میں ایندھن کی طرح جل کر بھی
ہے چہرہ کون سا دھنباد کا پتہ نہ چلا
میں اپنے آپ سے روٹھا ہوں ہے خبر کس کو
کہ عمر بھر دل ناشاد کا پتہ نہ چلا
اگا ہے دشت صدا کس کی تخم کاری سے
سکوت بے اثر اس کھاد کا پتا نہ چلا
بیاں کا عجز جھلکتا ہے اس کی آنکھوں سے
مگر طویل سی روداد کا پتہ نہ چلا