بھیک

’’ہلو۔بھیکو۔میں یہاں غوثیہ مسجد کے پا س سے بول رہی ہوں۔تو کہاں ہے ؟‘‘
’’ہاں۔منگی۔میں یہاں وہابیوں کی مسجدِ حمد قلعہ کے پاس ہوں۔یہ لوگ سورج ڈوبتے ہی فوراً روزہ کھول دیتے ہیں۔افطار میں بہت جلدی کرتے ہیں۔ان کے ہاں سائرن نہیں بجتا۔افطار کے وقت اذاں ہوتی ہے۔ان کی تو نماز بھی ہوتی رہتی ہے تب کہیں دوسری مسجدوں سے سائرن کی آوازیں آنا شروع ہوتی ہیں۔‘‘
’’اپنے کو بھی بھیک کی جلدی ہے۔میں یہاں بھیک مانگ کر تیری مسجد کے پاس پہنچ جاؤں گی۔ وہاں لوگ اطمینان سے روزہ کھول کے اطمینان سے اذاں دیں گے۔تب کہیں نماز ہو گی۔تب تک میں پہنچ جاؤں گی۔ تو وہیں غوثیہ مسجد کے پاس ٹھہر۔میں آ رہی ہوں۔میں زیادہ دور نہیں ہوں۔وہاں سے اپن دونوں مل کر عباسی مسجد کو جائیں گے۔وہاں روزہ بہت دیر سے کھولا جاتا ہے ‘‘
’’اچھا ٹھیک ہے۔تیرے آنے تک میں فون ری چارج Rechargeکروا لیتی ہوں۔بڑی بچی کو مکہ کا ویزا فقیرے نے دلا دیا ہے۔رمضان میں وہاں خوب آمدنی ہوتی ہے۔اب کے عید اچھی گزر ے گی۔ اس کا منگیتر جہیز خوب مانگ رہا ہے۔مانگ پوری کرنا ہے۔‘‘
’’ٹھیک ہے ٹھیک ہے۔باقی باتیں مل کر ہوں گی۔بھیک شروع ہو گئی ہے ‘‘