بیگانہ بنا دیتا ہے انداز بیاں اور
بیگانہ بنا دیتا ہے انداز بیاں اور
ہو سامنا ان کا تو بہکتی ہے زباں اور
تیز آگ ہوئی جاتی ہے اے سوز نہاں اور
آنسو جو ٹپکتے ہیں تو اٹھتا ہے دھواں اور
اے روح نہ ہو جائے کہیں جسم گراں اور
گھبرائے مسافر تو بدلتا ہے مکاں اور
جب ڈوبتے تاروں سے الجھ جاتی ہیں آہیں
چھا جاتا ہے محفل پہ چراغوں کا دھواں اور
کس طرح سے یکساں ہوں محبت کے تقاضے
پروانوں کے دل اور ہیں شمعوں کی زباں اور