بے تاب پاس شمع کے پروانہ آ گیا

بے تاب پاس شمع کے پروانہ آ گیا
کیا بات ہے کہ ہوش میں دیوانہ آ گیا


ساقی کی بارگاہ میں توبہ ہوئی قبول
خود ڈھونڈھتا ہوا مجھے مے خانہ آ گیا


سجدوں کا میرے ناز اٹھانے کے واسطے
کعبے کے سامنے در جانانہ آ گیا


دامن کو میرے دیکھ کے حسرت کے ہاتھ میں
یاد ان کو اپنا لطف کریمانہ آ گیا


مجھ کو مرے سوال پہ بخشا ہے دو جہاں
اب اعتبار طرز فقیرانہ آ گیا


تھی شیخ و برہمن کی مے و انگبیں پہ بحث
اتنے میں بڑھ کے کیفیؔ دیوانہ آ گیا