بے سبب کیوں ہو پریشان کہاں جاؤ گے

بے سبب کیوں ہو پریشان کہاں جاؤ گے
شب اندھیری ہے مری جان کہاں جاؤ گے


رنگ لائیں مرے آنسو مرے نالے نہ کہیں
باد و باراں کا ہے امکان کہاں جاؤ گے


اف یہ طوفان ترنم یہ جھنکتی پائل
شب میں اس طرح بالاعلان کہاں جاؤ گے


دو قدم چلتے ہو اور چل کے ٹھہر جاتے ہو
آؤ جانا نہیں آسان کہاں جاؤ گے


یہ جوانی کا ابھار اور یہ فطرت کا دباؤ
لے کے اٹھتا ہوا طوفان کہاں جاؤ گے


رات کا وقت ہے تنہا ہو زمانہ ہے خراب
اپنے اوپر کرو احسان کہاں جاؤ گے


لوگ اٹھتے ہیں عبادت کے لیے پچھلے پہر
ڈگمگا جائیں گے ایمان کہاں جاؤ گے


راہ میں گنج شہیداں سے پڑے گا پالا
حشر اٹھنے کا ہے امکان کہاں جاؤ گے


ڈھونڈھنے نکلے تو ہو دل کا سکوں اے فاروقؔ
ساری دنیا ہے پریشان کہاں جاؤ گے