برسات کی رات
بھیگی ہری اوڑھنیاں اوڑھے
جوہی چنبیلی
چمپا کامنی
رس بھری ہواؤں کے
تھپیڑوں سے
کپکپاتی ہیں
گھپ اندھیرے میں
جگنوؤں کی بے آواز بوندیں
ٹپکتی ہیں
بیاکل رات
خاموشیوں کے سنگیت میں
ڈوب گئی ہے
مہکتی سانسوں کے
نم جھونکے
دبے پاؤں
بھیتر آ کر
بند آنکھوں کو
ہلکے سے چوم لیتے ہیں
لیکن وہ لجاتی مسکراتی کلی
ادھر کا رستہ بھول گئی
یا اندھیارے کی چادر تان کر
وہیں کہیں باہر
باغ میں سو گئی