برستی آگ میں گھر سے نکل کے دیکھتے ہیں

برستی آگ میں گھر سے نکل کے دیکھتے ہیں
ہم آج موم کی صورت پگھل کے دیکھتے ہیں


مقام شکر ہے اس دور میں بھی اہل نظر
ادب کے چہرے پہ جگنو غزل کے دیکھتے ہیں


ہزار ہم پہ کرے طنز دل کا آئینہ
نئے زمانہ کے سانچے میں ڈھل کے دیکھتے ہیں


ہماری ماں ہمیں پہچانتی ہے یا کہ نہیں
وطن کی آگ کو چہرے پہ مل کے دیکھتے ہیں


دماغ اپنے مکاں کا بھی آج گڑبڑ ہے
مزاج شہر کی سڑکوں کا چل کے دیکھتے ہیں


نشیب والے جسے سر اٹھا کے دیکھتے تھے
نشان مٹتے اسی ال جبل کے دیکھتے ہیں


سفر حیات کا اک سمت ہو چکا ہے بہت
شفقؔ ٹرین کی پٹری بدل کے دیکھتے ہیں