بند رکھتا ہوں بس یہ جان کے منہ

بند رکھتا ہوں بس یہ جان کے منہ
کبھی لگیے نہ بد زبان کے منہ


تاب کس کو ہے تیر کھانے کی
کون آئے چڑھی کمان کے منہ


مجھ کو کیا کیا گماں گزرتا ہے
پاس لاتے ہیں جب وہ کان کے منہ


مست مئے سے الجھ نہ اے گردوں
بڈھے آتا ہے کیوں جوان کے منہ


پہلے وہ جھک کے بات کرتے تھے
اب چڑھاتے ہیں سینہ تان کے منہ


چھاپے صندل کے لگ گئے آخر
دو زبانی سے مہربان کے منہ


لال ہو کر مری طلب پہ کہا
پہلے قابل بناؤ پان کے منہ


آپ کا حکم سن کے لوٹ آیا
کیسے لگتا میں پاسبان کے منہ


آج فاروقؔ فیصلہ ہو جائے
کھولتا ہوں یہ دل میں ٹھان کے منہ