بن کے اک مصرعۂ نمناک نظر تک پہنچا

بن کے اک مصرعۂ نمناک نظر تک پہنچا
موجزن عشق مرا عرش و قمر تک پہنچا


کس طرح بھولوں بتا خوف سے جرجر آنکھیں
دیکھتے دیکھتے پانی مرے سر تک پہنچا


اشتہاروں میں ہی گم ہو گئی کل آوازیں
سب نے بس دیکھا سنا کون خبر تک پہنچا


حکمرانوں کو فقط ووٹ سے مطلب ورنہ
کس نے مفلس کی سنی کون ادھر تک پہنچا


تم سے کہتے نہ بنے ہم کو پتہ ہے وہ شے
جذبۂ عشق تھا ہونٹوں سے جگر تک پہنچا


اس کے جذبوں کی بدولت ہی تو گننا سیکھے
وہ خلاؤں سے لڑا شونیہ بشر تک پہنچا


دل کا سب حال بیاں کر گئیں مخبر آنکھیں
روگ پالا تھا کبھی آج اثر تک پہنچا


آپ پر کھل نہ سکا اپنی طبیعت کا رموز
اور وہ شخص تو امکان بشر تک پہنچا