بیٹھا ہوں وقف ماتم ہستی مٹا ہوا

بیٹھا ہوں وقف ماتم ہستی مٹا ہوا
زہر وفا ہے گھر کی فضا میں گھلا ہوا


خود ان کے پاس جاؤں نہ ان کو بلاؤں پاس
پایا ہے وہ مزاج کہ جینا بلا ہوا


اپنی زباں کو آج وہ تاثیر ہے نصیب
جس کو خدائے حسن کہا وہ خدا ہوا


اس پر غلط ہے عشق میں الزام دشمنی
قاتل ہے میرے حجلۂ جاں میں چھپا ہوا


جاں ہے تو فکر عشرت بزم جہاں بھی ہے
کب دل سے درد عالم امکاں جدا ہوا


ہیں جسم و جاں بہم یہ مگر کس کو ہے خبر
کس کس جگہ سے دامن دل ہے سلا ہوا


ہے راہوار شوق پہ آسیب بے دلی
رکھا ہے کب سے سامنے ساغر بھرا ہوا


حاصل ہے جس کو عرشؔ فضاؤں پہ اختیار
وہ دل کے ساتھ کھیل رہا ہے تو کیا ہوا