بڑے نازک سے جذبوں سے محبت میں نے پالی تھی
بڑے نازک سے جذبوں سے محبت میں نے پالی تھی
پھر اپنے قیمتی لفظوں کی اس میں جان ڈالی تھی
نہ جانے کون سے مذہب سے دیوانے کا رشتہ تھا
کہ اس نے اپنی ہی تنہا سی اک بستی بسا لی تھی
گلوں سا چاند سا تاروں سا ہم بھی شور کرتے تھے
کہ کس درجہ محبت ہم نے سر پہ ہی اٹھا لی تھی
کبھی سوچا ہے تم نے بھی میں چپ کیوں ہو گئی آخر
کہ میں نے صبر سے اپنی زباں دل میں دبا لی تھی
کہیں وہ آخری لمحہ تری الجھن نہ بن جائے
سو تجھ سے اپنی آنکھوں کی نمی میں نے چھپا لی تھی