دنیا کی آب و تاب سے آگے چلے گئے

دنیا کی آب و تاب سے آگے چلے گئے
ہم عشق کے عذاب سے آگے چلے گئے


آنکھوں نے لکھ لیے ہیں فسانے امید کے
آنسو فصیل آب سے آگے چلے گئے


اس نے قبولیت کی سند جب سے دی مجھے
سب حرف اس کتاب سے آگے چلے گئے


جب خوشبوؤں کے در پہ ہوئی روشنی تو ہم
گلشن کے ہر گلاب سے آگے چلے گئے


خاموشیوں کی جب سے سمجھنے لگے زباں
لفظوں کے اضطراب سے آگے چلے گئے


آنکھیں چمک اٹھی ہیں جو روشن خیال سے
دیوانگی کے خواب سے آگے چلے گئے