خیال ہجر میں اب جو بھی سانحہ ہوگا
خیال ہجر میں اب جو بھی سانحہ ہوگا
وہی تو پھر سے نیا ایک سلسلہ ہوگا
کسے خبر تھی کہ اس روشنی کی چادر میں
ہمارا عشق میں پھولوں سے رابطہ ہوگا
امیر شہر کو پیغام مل بھی جائے تو
غریب شہر کا کوئی نہ آسرا ہوگا
نئے افق سے گریزاں نہ ہو مرے ہمدم
پرانی سوچ سے اب یہ نہ فیصلہ ہوگا
خدا کا شکر دعائیں جو رنگ لائی ہیں
لکھوں گی لفظ میں جو بھی وہ برملا ہوگا
سنیں گے لوگ یہ جب بھی مری کہانی کو
حصار ذات کے قیدی کا ماجرا ہوگا
عجیب حال ہے اندر کی خلفشاری کا
کسے خبر تھی کہ ایسا یہ حادثہ ہوگا