باعث آسودگی ہے حشر سامانی مجھے

باعث آسودگی ہے حشر سامانی مجھے
راس آتی ہے بڑی مشکل سے آسانی مجھے


دیکھ کر تیری عنایت اور ترا لطف و کرم
کھل رہی ہے یار اپنی تنگ دامانی مجھے


کر رہا ہے ذہن میں گردش کوئی دھندلا سا عکس
لگ رہی ہے اس کی صورت جانی پہچانی مجھے


سوچنے کا زاویہ میں نے بدل ڈالا ہے دوست
اب پریشانی نہیں لگتی پریشانی مجھے


سونپ دی اس نے مجھے اپنے بدن کی سلطنت
مل گئی ہو مفلسی میں جیسے سلطانی مجھے


لقمۂ گرداب ہونے ہی کو تھا میں اور پھر
دفعتاً آئی نظر اک موج امکانی مجھے


آج پھر کھلنے لگی ہے مجھ پہ رمز کائنات
آج پھر ہونے لگی ہے خود پہ حیرانی مجھے


سوچتا ہوں اولی مصرع جب کبھی نایابؔ میں
خود کو لکھواتا ہے بڑھ کر مصرع ثانی مجھے