Ziya Mazkoor

ضیاء مذکور

ضیاء مذکور کی غزل

    ایسے اس ہاتھ سے گرے ہم لوگ

    ایسے اس ہاتھ سے گرے ہم لوگ ٹوٹتے ٹوٹتے بچے ہم لوگ اپنا قصہ سنا رہا ہے کوئی اور دیوار کے بنے ہم لوگ وصل کے بھید کھولتی مٹی چادریں جھاڑتے ہوئے ہم لوگ اس کبوتر نے اپنی مرضی کی سیٹیاں مارتے رہے ہم لوگ پوچھنے پر کوئی نہیں بولا کیسے دروازہ کھولتے ہم لوگ حافظے کے لیے دوا کھائی اور ...

    مزید پڑھیے

    تم نے بھی ان سے ہی ملنا ہوتا ہے

    تم نے بھی ان سے ہی ملنا ہوتا ہے جن لوگوں سے میرا جھگڑا ہوتا ہے اس کے گاؤں کی ایک نشانی یہ بھی ہے ہر نلکے کا پانی میٹھا ہوتا ہے میں اس شخص سے تھوڑا آگے چلتا ہوں جس کا میں نے پیچھا کرنا ہوتا ہے تم میری دنیا میں بالکل ایسے ہو تاش میں جیسے حکم کا اکا ہوتا ہے کتنے سوکھے پیڑ بچا سکتے ...

    مزید پڑھیے

    وقت ہی کم تھا فیصلے کے لئے

    وقت ہی کم تھا فیصلے کے لئے ورنہ میں آتا مشورے کے لئے تم کو اچھے لگے تو تم رکھ لو پھول توڑے تھے بیچنے کے لئے گھنٹوں خاموش رہنا پڑتا ہے آپ کے ساتھ بولنے کے لئے سیکڑوں کنڈیاں لگا رہا ہوں چند بٹنوں کو کھولنے کے لئے ایک دیوار باغ سے پہلے اک دوپٹا کھلے گلے کے لئے ترک اپنی فلاح کر دی ...

    مزید پڑھیے

    اسی ندامت سے اس کے کندھے جھکے ہوئے ہیں

    اسی ندامت سے اس کے کندھے جھکے ہوئے ہیں کہ ہم چھڑی کا سہارا لے کر کھڑے ہوئے ہیں یہاں سے جانے کی جلدی کس کو ہے تم بتاؤ کہ سوٹ کیسوں میں کپڑے کس نے رکھے ہوئے ہیں کرا تو لوں گا علاقہ خالی میں لڑ جھگڑ کر مگر جو اس نے دلوں پہ قبضے کیے ہوئے ہیں وہ خود پرندوں کا دانہ لینے گیا ہوا ہے اور ...

    مزید پڑھیے

    بول پڑتے ہیں ہم جو آگے سے

    بول پڑتے ہیں ہم جو آگے سے پیار بڑھتا ہے اس رویے سے میں وہی ہوں یقیں کرو میرا میں جو لگتا نہیں ہوں چہرے سے ہم کو نیچے اتار لیں گے لوگ عشق لٹکا رہے گا پنکھے سے سارا کچھ لگ رہا ہے بے ترتیب ایک شے آگے پیچھے ہونے سے ویسے بھی کون سی زمینیں تھیں میں بہت خوش ہوں عاق نامے سے یہ محبت وہ ...

    مزید پڑھیے

    فون تو دور وہاں خط بھی نہیں پہنچیں گے

    فون تو دور وہاں خط بھی نہیں پہنچیں گے اب کے یہ لوگ تمہیں ایسی جگہ بھیجیں گے زندگی دیکھ چکے تجھ کو بڑے پردے پر آج کے بعد کوئی فلم نہیں دیکھیں گے مسئلہ یہ ہے میں دشمن کے قریں پہنچوں گا اور کبوتر مری تلوار پہ آ بیٹھیں گے ہم کو اک بار کناروں سے نکل جانے دو پھر تو سیلاب کے پانی کی طرح ...

    مزید پڑھیے

    میرے کمرے میں اک ایسی کھڑکی ہے

    میرے کمرے میں اک ایسی کھڑکی ہے جو ان آنکھوں کے کھلنے پر کھلتی ہے ایسے تیور دشمن ہی کے ہوتے ہیں پتا کرو یہ لڑکی کس کی بیٹی ہے رات کو اس جنگل میں رکنا ٹھیک نہیں اس سے آگے تم لوگوں کی مرضی ہے میں اس شہر کا چاند ہوں اور یہ جانتا ہوں کون سی لڑکی کس کھڑکی میں بیٹھی ہے جب تو شام کو گھر ...

    مزید پڑھیے