ایسے اس ہاتھ سے گرے ہم لوگ

ایسے اس ہاتھ سے گرے ہم لوگ
ٹوٹتے ٹوٹتے بچے ہم لوگ


اپنا قصہ سنا رہا ہے کوئی
اور دیوار کے بنے ہم لوگ


وصل کے بھید کھولتی مٹی
چادریں جھاڑتے ہوئے ہم لوگ


اس کبوتر نے اپنی مرضی کی
سیٹیاں مارتے رہے ہم لوگ


پوچھنے پر کوئی نہیں بولا
کیسے دروازہ کھولتے ہم لوگ


حافظے کے لیے دوا کھائی
اور بھی بھولنے لگے ہم لوگ


عین ممکن تھا لوٹ آتا وہ
اس کے پیچھے نہیں گئے ہم لوگ