Zia Jalandhari

ضیا جالندھری

ممتاز ترین پاکستانی جدید شاعروں میں نمایاں

One of the most prominent-modern poets.

ضیا جالندھری کی نظم

    دکھاوا

    شکستہ دیوار و در پہ سبزہ بہار کے راگ الاپتا ہے سیاہ درزوں میں گھاس کے زرد نیم جاں پھول ہنس رہے ہیں میں اپنی ویراں خزاں زدہ زندگی سے بیگانہ ہو گیا ہوں تھرک رہی ہے فسردہ ہونٹوں پہ اک سکوں بار مسکراہٹ جو مجھ کو مجھ سے چھپا رہی ہے میں ہنس رہا ہوں میں کھو گیا ہوں کسی کو ہموار سطح کی ...

    مزید پڑھیے

    صبح سے شام تک

    ایک شوخی بھری دوشیزۂ بلور جمال جس کے ہونٹوں پہ ہے کلیوں کے تبسم کا نکھار سیمگوں رخ سے اٹھائے ہوئے شب رنگ نقاب تیز رفتار اڑاتی ہوئی کہرے کا غبار افق شرق سے اٹھلاتی ہوئی آتی ہے مست آنکھوں سے برستا ہے صبوحی کا خمار پھول سے جسم پہ ہے شبنمی زرتار لباس کروٹیں لیتا ہے دل میں اسے چھونے ...

    مزید پڑھیے

    ادھوری

    نخل نمو کی شاخ پہ جس دم نم کی آنچ کی سرشاری میں پنکھ اپنے پھیلا کر غنچہ پوری تاب سے کھل اٹھتا ہے رنگ اور خوشبو کی بانی میں ذات و حیات کے کتنے نکتے پورے وجود سے کہہ دیتا ہے یہ نہیں جانتا کیسے کیسے رت کے بھید ہوا کے تیور پھر بھی ان کہے رہ جاتے ہیں دیکھتے دیکھتے رنگ اور خوشبو آپ ہی ...

    مزید پڑھیے

    پیغام

    اب کہ اک عمر کی محرومی سے دل نے سمجھوتہ سا کر رکھا تھا اب کہ اس رت میں کسی پیڑ پہ پتا تھا نہ پھول اب کے ہر طرح کے دکھ کے لیے تیار تھا دل کس لیے سوکھی ہوئی شاخ پہ یہ شعلہ سی کونپل پھوٹی کس لیے تیرا یہ پیغام آیا

    مزید پڑھیے

    کسک

    ترے دل میں غلطاں ہو گر وہ انوکھی کسک کہ جس کے سبب تجھ کو ہر شے پکارے، کہے: مجھے دیکھ میری طرف آ مجھے پیار کر تو لپکے تو ہر چیز تجھ سے کھنچے دور دور ترے دل میں ہو موج در موج اک سیل درد مگر تو نہ سمجھے کشش کیا ہے دوری ہے کیوں فقط وہ انوکھی خلش دل میں غلطاں رہے ہواؤں کے ہاتھوں میں بیتاب ...

    مزید پڑھیے

    ہابیل

    اولیں ذائقۂ خوں سے تھی لب تلخ وہ خاک جس پہ میں ٹوٹی ہوئی شاخ کے مانند گرا کن شراروں کی دہک دیدۂ قابیل میں تھی وہ حسد تھا کہ ہوس طیش کہ نفرت کیا تھا اور پھر میرے بدن میرے لہو میں اترا اولیں بے بسیٔ کرب فنا کا ادراک بجھ گئی شمع نظر مٹ گئے آواز کے نقش بوئے گل، جوئے صبا، نجم سحر کچھ ...

    مزید پڑھیے

    بلند پیڑوں کے سبز پتوں میں سطح دریا کی سلوٹوں پر

    بلند پیڑوں کے سبز پتوں میں سطح دریا کی سلوٹوں پر ہوا کے جھونکوں سے دھوپ کے جھلملاتے تارے تھرک رہے ہیں خنک ہوا جیسے کانچ کی تیز کرچیں رگ رگ کو چیرتی ہیں خنک ہوا جیسے تلخ مے کائنات کے جسم میں رواں ہے یہ کشتیاں برف سے ڈھکی نیلی چوٹیوں پر نظر جمائے ہوا سے ٹکراتی سرد پانی کو کاٹتی ...

    مزید پڑھیے

    شہر آشوب

    وہی صدا جو مرے خوں میں سرسراتی تھی وہ سایہ سایہ ہے اب ہر کسی کی آنکھوں میں یہ سرسراہٹیں سانپوں کی سیٹیوں کی طرح سیاہیوں کے سمندر کی تہ سے موج بہ موج ہماری بکھری صفوں کی طرف لپکتی ہیں بدن ہیں برف، رگیں رہ گزار ریگ رواں کئی تو سہم کے چپ ہو گئے ہیں صورت سنگ جو بچ گئے ہیں وہ اک دوسرے کی ...

    مزید پڑھیے

    آنسو

    سنو، سنو، آنسوؤں کی آواز روح کو اپنے دکھتے ہاتھوں سے چھو رہی ہے خزاں زدہ خشک پتیاں ہیں جو سطح آب رواں پہ رک رک کے گر رہی ہیں وہ سطح آب آئینہ ہے جس میں گزشتہ لمحوں کے ملگجے نقش ابھر رہے ہیں ان آئینہ رنگ آنسوؤں میں ہر آرزو ہر خیال ہر یاد ایک تصویر بے کسی ہے شفق کے بجھتے الاؤ میں راکھ ...

    مزید پڑھیے

    چاک

    ۱ وہ ازل سے اپنے عظیم چاک پہ ممکنات کے انکشاف میں محو ہے فلک و زمیں مہ و آفتاب و نجوم کہنہ کرشمے اس کے کمال کے ابھی اس کی جدت بے پناہ کو طرح نو کی تلاش ہے ابھی عرش و فرش کے ناشنیدہ شمائل اس کی نظر میں ہیں ابھی ماورائے خیال و فکر مسائل اس کی نظر میں ہیں کرۂ زمیں کو یہ فخر ہے کہ یہ خاک ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3