Zia Jalandhari

ضیا جالندھری

ممتاز ترین پاکستانی جدید شاعروں میں نمایاں

One of the most prominent-modern poets.

ضیا جالندھری کی غزل

    شاداب شاخ درد کی ہر پور کیوں نہیں

    شاداب شاخ درد کی ہر پور کیوں نہیں ہر برگ اک زباں ہے تو پھر شور کیوں نہیں وارستۂ‌ عذاب تماشا ہے چشم برگ اے آگہی نگاہ مری کور کیوں نہیں دست سوال برگ ہے شبنم سے کیوں تہی جو بادلوں کو لوٹ لے وہ زور کیوں نہیں زیست ایک برگ تشنہ ہے وہ ابر کیا ہوئے اب ان کی کوئی راہ مری اور کیوں ...

    مزید پڑھیے

    گو سر ارتقا و بقا میرا جسم ہے

    گو سر ارتقا و بقا میرا جسم ہے سنتا ہوں تو فنا کی سدا میرا جسم ہے میں ہوں ازل سے وقت کی گردش کا راز دار یہ بزم کائنات ہے کیا میرا جسم ہے ایسا رہا چمن میں کہ محسوس یہ ہوا جو گل کھلا جو سبزہ اگا میرا جسم ہے آنکھوں کے ماورا جھلک اٹھتا ہے گاہ گاہ وہ شوخ جس کی سادہ قبا میرا جسم ہے میری ...

    مزید پڑھیے

    خون کے دریا بہہ جاتے ہیں خیر اور خیر کے بیچ

    خون کے دریا بہہ جاتے ہیں خیر اور خیر کے بیچ اپنے آپ میں سب سچے ہیں مسجد و دیر کے بیچ لاگ ہو یا کہ لگن ہو دونوں ایک دیے کی لویں ایک ہی روشنی لہراتی ہے پیار اور بیر کے بیچ دل میں دھوپ کھلے تو اندھیرے چھٹ جاتے ہیں آپ اب ہم فرق روا نہیں رکھتے یار اور غیر کے بیچ سوچ سمجھ سب سچ ہے لیکن ...

    مزید پڑھیے

    دکھ تماشا تو نہیں ہے کہ دکھائیں بابا

    دکھ تماشا تو نہیں ہے کہ دکھائیں بابا رو چکے اور نہ اب ہم کو رلائیں بابا کیسی دہشت ہے کہ خواہش سے بھی ڈر لگتا ہے منجمد ہو گئی ہونٹوں پہ دعائیں بابا موت ہے نرم دلی کے لیے بدنام ان میں ہیں یہاں اور بھی کچھ ایسی بلائیں بابا داغ دکھلائیں ہم ان کو تو یہ مٹ جائیں گے کیا غم گساروں سے ...

    مزید پڑھیے

    اپنے احوال پہ ہم آپ تھے حیراں بابا

    اپنے احوال پہ ہم آپ تھے حیراں بابا آنکھ دریا تھی مگر دل تھا بیاباں بابا یہ وہ آنسو ہیں جو اندر کی طرف گرتے ہیں ہوں بھی تو ہم نظر آتے نہیں گریاں بابا اس قدر صدمہ ہے کیوں ایک دل ویراں پر شہر کے شہر یہاں ہو گئے ویراں بابا یہ شب و روز کے ہنگاموں سے سہمے ہوئے لوگ رہتے ہیں موج صبا سے ...

    مزید پڑھیے

    اک خواب تھا آنکھوں میں جو اب اشک سحر ہے

    اک خواب تھا آنکھوں میں جو اب اشک سحر ہے اک طائر وحشی تھا سو وہ خون میں تر ہے وہ دور نہیں ہے یہ رسائی نہیں ہوتی ہر لمحہ کوئی تازہ خم راہ گزر ہے دل آج کچھ اس طرح دھڑکتا ہے کہ جیسے اب شوق ملاقات پہ حاوی کوئی ڈر ہے کچھ حوصلۂ ضبط ہے کچھ وضع ہے اپنی شعلہ نہ بنا لب پہ جو سینے میں شرر ...

    مزید پڑھیے

    چاند ہی نکلا نہ بادل ہی چھما چھم برسا

    چاند ہی نکلا نہ بادل ہی چھما چھم برسا رات دل پر غم دل صورت شبنم برسا جلتی جاتی ہیں جڑیں سوکھتے جاتے ہیں شجر ہو جو توفیق تو آنسو ہی کوئی دم برسا میرے ارمان تھے برسات کے بادل کی طرح غنچے شاکی ہیں کہ یہ ابر بہت کم برسا پے بہ پے آئے سجل تاروں کے مانند خیال میری تنہائی پہ شب حسن جھما ...

    مزید پڑھیے

    کیسے دکھ کتنی چاہ سے دیکھا

    کیسے دکھ کتنی چاہ سے دیکھا تجھے کس کس نگاہ سے دیکھا شدت لا زوال سے چاہا حسرت بے پناہ سے دیکھا اتنا سوچا تجھے کہ دنیا کو ہم نے تیری نگاہ سے دیکھا شوق کیا غیر معتبر ٹھہرا تو نے جب اشتباہ سے دیکھا اپنی تاریک زندگی میں تجھے خوب تر مہر و ماہ سے دیکھا اہل دل پر تری کشش کا اثر اپنے ...

    مزید پڑھیے

    کچھ اور پلا نشاط کی مے

    کچھ اور پلا نشاط کی مے یہ لذت‌ جسم ہے عجب شے اب بھی وہی گیت ہے وہی لے ہم وہ نہیں انجمن وہی ہے تخیل میں ہر طلب ہے تحصیل جو بات کہیں نہیں یہاں ہے کرتے ترا انتظار ابد تک لیکن ترا اعتبار تا کے مجھ کو تو نہ راس آئی دوری تجھ میں بھی وہ بات اب نہیں ہے دیوانگیاں کبھی مٹی ہیں ہر چند رہا ...

    مزید پڑھیے

    دیکھیں آئینے کے مانند سہیں غم کی طرح

    دیکھیں آئینے کے مانند سہیں غم کی طرح ہم کہ ہیں بزم گل و لالہ میں شبنم کی طرح وقت بے مہر ہے اس فرصت کمیاب میں تم میری آنکھوں میں رہو خواب مجسم کی طرح عرصۂ عمر میں کیا کیا نہ رتیں آئیں مگر کوئی ٹھہری نہ یہاں درد کے موسم کی طرح کس طرح اس سے کہوں زخم بھی ہیں اس کی عطا ہاتھ جس کا مرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4