Zia Fatehabadi

ضیا فتح آبادی

ضیا فتح آبادی کی غزل

    لو آج سمندر کے کنارے پہ کھڑا ہوں

    لو آج سمندر کے کنارے پہ کھڑا ہوں غرقاب سفینوں کے سسکنے کی صدا ہوں اک خاک بہ سر برگ ہوں ٹہنی سے جدا ہوں جوڑے گا مجھے کون کہ میں ٹوٹ گیا ہوں اب بھی مجھے اپنائے نہ دنیا تو کروں کیا ماحول سے پیمان وفا باندھ رہا ہوں مستقبل بت خانہ کا حافظ ہے خدا ہی ہر بت کو یہ دعویٰ ہے کہ اب میں ہی خدا ...

    مزید پڑھیے

    فرشتے امتحان بندگی میں ہم سے کم نکلے

    فرشتے امتحان بندگی میں ہم سے کم نکلے مگر اک جرم کی پاداش میں جنت سے ہم نکلے غم‌ دنیا و دیں ان کو نہ فکر نیک و بد ان کو محبت کرنے والے بے نیاز بیش و کم نکلے غرض کعبہ سے تھی جن کو نہ تھا مطلب کلیسا سے حد دیر و حرم سے بھی وہ آگے دو قدم نکلے سحر کی منزل روشن پہ جا پہنچے وہ دیوانے شب ...

    مزید پڑھیے

    مرے جنوں میں مری وفا میں خلوص کی جب کمی ملے گی

    مرے جنوں میں مری وفا میں خلوص کی جب کمی ملے گی چمن گرفت خزاں میں ہوگا بہار اجڑی ہوئی ملے گی جواں ہے ہمت ہے عزم محکم نظر اٹھائیں تو اہل دانش الم کے تاریک افق پہ روشن شعاع امید بھی ملے گی تصور اس ماہرو کا ہوگا کبھی تو دل میں ضیا بدامن کبھی تو ظلمت کدے میں ہم کو کھلی ہوئی چاندنی ملے ...

    مزید پڑھیے

    دم ہوا کے سوا کچھ اور نہیں

    دم ہوا کے سوا کچھ اور نہیں بت خدا کے سوا کچھ اور نہیں شعر فہمی کہاں کہ اب لب پر مرحبا کے سوا کچھ اور نہیں آدمی ہے مگر ادھورا ہے پارسا کے سوا کچھ اور نہیں راہ ہستی کی منزل موہوم نقش پا کے سوا کچھ اور نہیں ابتدا درد دل کی کیا کہئے انتہا کے سوا کچھ اور نہیں اپنی پہچان آپ پیدا ...

    مزید پڑھیے

    یوں حسرتوں کی گرد میں تھا دل اٹا ہوا

    یوں حسرتوں کی گرد میں تھا دل اٹا ہوا جیسے درخت سے کوئی پتا گرا ہوا ہو ہی گیا ہے نبض شناس غم جہاں سینے میں عشق کے مرا دل کانپتا ہوا ملتا سراغ خاک مجھے میرے سائے کا ہر سمت ظلمتوں کا تھا جنگل اگا ہوا کل رات خواب میں جو مقابل تھا آئنہ میرا ہی قد مجھے نظر آیا بڑھا ہوا جانے بھی دو وہ ...

    مزید پڑھیے

    آنکھ سے آنسو ڈھلکا ہوتا

    آنکھ سے آنسو ڈھلکا ہوتا تو پھر سورج ابھرا ہوتا کہتے کہتے غم کا فسانہ کٹتی رات سویرا ہوتا کشتی کیوں ساحل پر ڈوبی موجیں ہوتیں دریا ہوتا جو گرجا پیاسی دھرتی پر کاش وہ بادل برسا ہوتا پھولوں میں چھپنے والوں کو کانٹوں میں تو ڈھونڈا ہوتا تجھ کو پانا سہل نہیں ہے سہل جو ہوتا تو کیا ...

    مزید پڑھیے

    رگ احساس میں نشتر ٹوٹا

    رگ احساس میں نشتر ٹوٹا ہاتھ سے چھوٹ کے ساغر ٹوٹا ٹوٹنا تھا دل نازک کو نہ پوچھ کب کہاں کس لئے کیوں کر ٹوٹا سینہ دھرتی کا لرز اٹھا ہے آسماں سے کوئی اختر ٹوٹا جھک گیا پائے بتاں پر لیکن پتھروں سے نہ مرا سر ٹوٹا سخت جانی مری توبہ توبہ قتل کرتے تھے کہ خنجر ٹوٹا اشک پلکوں سے گرا یوں ...

    مزید پڑھیے

    گو آج اندھیرا ہے کل ہوگا چراغاں بھی

    گو آج اندھیرا ہے کل ہوگا چراغاں بھی تخریب میں شامل ہے تعمیر کا ساماں بھی مظہر ترے جلووں کے مامن مری وحشت کے کہسار و گلستاں بھی صحرا و بیاباں بھی دم توڑتی موجیں کیا ساحل کا پتہ دیں گی ٹھہری ہوئی کشتی ہے خاموش ہے طوفاں بھی مجبور غم دنیا دل سے تو کوئی پوچھے احساس کی رگ میں ہے خار ...

    مزید پڑھیے

    نظر نظر سے ملانا کوئی مذاق نہیں

    نظر نظر سے ملانا کوئی مذاق نہیں ملا کے آنکھ چرانا کوئی مذاق نہیں پہاڑ کاٹ تو سکتا ہے تیشۂ فرہاد پہاڑ سر پہ اٹھانا کوئی مذاق نہیں اڑانیں بھرتے رہیں لاکھ طائران خیال ستارے توڑ کے لانا کوئی مذاق نہیں لہو لہو ہے جگر داغ داغ ہے سینہ یہ دو دلوں کا فسانہ کوئی مذاق نہیں ہوائیں آج ...

    مزید پڑھیے

    دل اپنا صید تمنا ہے دیکھیے کیا ہو

    دل اپنا صید تمنا ہے دیکھیے کیا ہو ہوس کو عشق کا سودا ہے دیکھیے کیا ہو کسی کے لمحۂ الفت کی یاد کیف آور دل حزیں کا سہارا ہے دیکھیے کیا ہو بچا بچا کے رکھا تھا جسے وہی کشتی سپرد‌ موجۂ دریا ہے دیکھیے کیا ہو سکوت بت کدۂ آذری سے تنگ آ کر خدا کو میں نے پکارا ہے دیکھیے کیا ہو شکیب و صبر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2