ضیا فاروقی کی غزل

    مری زندگی کی کتاب میں یہی نقش ہیں مہ و سال کے

    مری زندگی کی کتاب میں یہی نقش ہیں مہ و سال کے وہ شگفتہ رنگ عروج کے یہ شکستہ رنگ زوال کے ترے حسن سے مرے عشق تک یہ جو نسبتوں کے ہیں سلسلے یہ شجر ہیں ایک ہی باغ کے یہ ثمر ہیں ایک ہی ڈال کے میں سناؤں کیا کوئی داستاں کہ ثبوت غم بھی نہیں رہا مرے عشق نامے کو لے گیا کوئی طاق جاں سے نکال ...

    مزید پڑھیے

    تماشا گاہ ہے یا عالم بے رنگ و بو کیا ہے

    تماشا گاہ ہے یا عالم بے رنگ و بو کیا ہے میں کس سے پوچھنے جاؤں کہ میرے روبرو کیا ہے بصارت کہہ رہی ہے کچھ نہیں اس دشت وحشت میں سماعت پوچھتی ہے پھر یہ آخر ہاؤ ہو کیا ہے یہ کس کی آمد و شد سے ہوائیں رقص کرتی ہیں یہ کیوں موسم بدلتے ہیں میان رنگ و بو کیا ہے در و دیوار کیا کہتے ہیں گھر کس ...

    مزید پڑھیے

    ایک مدت سے نہیں دیکھی ہے گھر کی صورت

    ایک مدت سے نہیں دیکھی ہے گھر کی صورت گردشیں آج بھی لپٹی ہیں سفر کی صورت قفس جاں میں نہ روزن ہے نہ در کی صورت کیسے دیکھوں میں یہاں شمس و قمر کی صورت اب یہی جنگ کا عنوان بھی ہو سکتا ہے اس نے پتھر کوئی پھینکا ہے خبر کی صورت ماں کی آغوش سے پیوند زمیں ہونے تک آئینے ہم نے تراشے ہیں سفر ...

    مزید پڑھیے

    نہ وہ گھر رہا نہ وہ بام و در نہ وہ چلمنیں نہ وہ پالکی

    نہ وہ گھر رہا نہ وہ بام و در نہ وہ چلمنیں نہ وہ پالکی مگر اب بھی میری زباں پہ ہے وہی داستاں سن و سال کی چلو بال و پر کو سمیٹ لیں کریں فکر اب کسی ڈال کی یہ غروب مہر کا وقت ہے یہ گھڑی ہے دن کے زوال کی سبھی موسموں سے گزر گیا کوئی بوجھ دل پہ لئے ہوئے مجھے راس آئی نہ رت کوئی نہ وہ ہجر کی ...

    مزید پڑھیے

    غبار اڑتا رہا کارواں رکا ہی نہیں

    غبار اڑتا رہا کارواں رکا ہی نہیں وہ کھو گیا تو مجھے پھر کبھی ملا ہی نہیں گواہ ہیں مرے گھر کے یہ بام و در سارے کہ تیرے بعد یہاں دوسرا رہا ہی نہیں نہ کوئی در نہ دریچہ نہ روزن و دیوار کہاں سے آئے ہوا کوئی راستا ہی نہیں ہزار رنگ بھرے لاکھ خال و خد کھینچے سراپا تیرا مکمل کبھی ہوا ہی ...

    مزید پڑھیے

    جسم و جاں رکھتا ہوں لیکن یہ حوالہ کچھ نہیں

    جسم و جاں رکھتا ہوں لیکن یہ حوالہ کچھ نہیں آپ کی نسبت ہے سب کچھ میرا اپنا کچھ نہیں عشق جس کوچہ میں رہتا ہے وہ کوچہ ہے بہشت عقل جس دنیا میں رہتی ہے وہ دنیا کچھ نہیں کتنے سادہ لوح تھے اگلے زمانے کے وہ لوگ کہہ دیا جو دل میں آیا دل میں رکھا کچھ نہیں دیکھنے والا کوئی ہوتا تو ہم بھی ...

    مزید پڑھیے

    عشق نے کر دیا کیا کیا سخن آرا ترے نام

    عشق نے کر دیا کیا کیا سخن آرا ترے نام وہ جو گاتا تھا فلک پر وہ ستارا ترے نام اسی فیاضی کا سایہ ہے مرے لفظوں پر جس نے بخشا ہے سمرقند و بخارا ترے نام اور میں دیتا بھی کیا اپنے جنوں کی قیمت کر دیا موسم گل سارے کا سارا ترے نام چشم گریاں کی قسم دیدۂ ویراں کی قسم وادئ شوق کا ہر ایک ...

    مزید پڑھیے

    مڑ کے دیکھوں تو نہیں کوئی مگر لگتا ہے

    مڑ کے دیکھوں تو نہیں کوئی مگر لگتا ہے ایک سایہ سا پس گرد سفر لگتا ہے کان دھرتا ہوں تو ہوتی ہے سماعت مجروح اپنی ہی خواہش بے باک سے ڈر لگتا ہے اس تماشے سے نکل پاؤں تو گھر بھی دیکھوں یہ تماشہ جو سر راہ گزر لگتا ہے نیند آ جائے تو پھر دھوپ نہ سایہ کوئی پاؤں تھک جائیں تو پردیس بھی گھر ...

    مزید پڑھیے

    ایک ہی گھر میں رکھ دئے کس نے جدا جدا چراغ

    ایک ہی گھر میں رکھ دئے کس نے جدا جدا چراغ تیرے لئے جلا چراغ میرے لئے بجھا چراغ عشق و طلب کی راہ میں باد ہوس بھی تیز تھی میں نے جلایا رات بھر کر کے خدا خدا چراغ صبح ہوئی تو آفتاب ساری بساط الٹ گیا رات اسی مقام پر رونق بزم تھا چراغ وقت سحر جو پوچھ لے کوئی تو کیا بتاؤں گا طاق جنوں پہ ...

    مزید پڑھیے

    میں جب بھی ترے شہر خوش آثار سے نکلا

    میں جب بھی ترے شہر خوش آثار سے نکلا اک قبر کا ٹکڑا بھی فلک زار سے نکلا ہر وار میں مضمر تری حکمت ہے سپاہی ہر جیت کا مژدہ تری تلوار سے نکلا پھر اپنی ہی ہیبت میں گرفتار ہوا میں پھر کوئی درندہ مرے پندار سے نکلا یہ کس نے سفینے کو نکالا ہے بھنور سے یہ کون شناور ہے جو منجدھار سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 3