Zaheer Dehlvi

ظہیرؔ دہلوی

ظہیرؔ دہلوی کی غزل

    رقیبوں کو ہم راہ لانا نہ چھوڑا

    رقیبوں کو ہم راہ لانا نہ چھوڑا نہ چھوڑا مرا جی جلانا نہ چھوڑا بلائیں ہی لے لے کے کاٹی شب وصل ستم گار نے منہ چھپانا نہ چھوڑا وہ کہتے ہیں لے اب تو سونے دے مجھ کو کوئی دل میں ارماں پرانا نہ چھوڑا وہ سینے سے لپٹے رہے گو شب وصل دل زار نے تلملانا نہ چھوڑا محبت کے برتاؤ سب چھوڑ ...

    مزید پڑھیے

    بتوں سے بچ کے چلنے پر بھی آفت آ ہی جاتی ہے

    بتوں سے بچ کے چلنے پر بھی آفت آ ہی جاتی ہے یہ کافر وہ قیامت ہیں طبیعت آ ہی جاتی ہے یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھیں ہیں جب آنکھیں چار ہوتی ہیں مروت آ ہی جاتی ہے وہ اپنی شوخیوں سے کوئی اب تک بعض آتے ہیں ہمیشہ کچھ نہ کچھ دل میں شرارت آ ہی جاتی ہے ہمیشہ عہد ہوتے ہیں نہیں ...

    مزید پڑھیے

    سخت دشوار ہے پہلو میں بچانا دل کا

    سخت دشوار ہے پہلو میں بچانا دل کا کچھ نگاہوں سے برستا ہے چرانا دل کا ہائے دل اور دل زار کے ہم سے برتاؤ اور پھر تم سے دل زار پہ آنا دل کا شمع سے زینت پہلو ہے نہ پروانے سے تم کو منظور ہے ہر طرح جلانا دل کا ناصحو زلف کے الجھاؤ برے ہوتے ہیں کچھ ہنسی کھیل سمجھتے ہو چھڑانا دل کا قہر ...

    مزید پڑھیے

    دے حشر کے وعدے پہ اسے کون بھلا قرض

    دے حشر کے وعدے پہ اسے کون بھلا قرض تم لے کے نہ دیتے ہو کسی کا نہ دیا قرض ہے دل میں اگر اس سے محبت کا ارادہ لے لیجئے دشمن کے لئے ہم سے وفا قرض عاشق کے ستانے میں دریغ ان کو نہ ہوگا موجود ہیں لینے کو جو مل جائے جفا قرض اس ہاتھ سے دو قول تو اس ہاتھ سے لو دل دیتا ہے کوئی حشر کے وعدے یہ ...

    مزید پڑھیے

    ملنے کا نہیں رزق مقدر سے سوا اور

    ملنے کا نہیں رزق مقدر سے سوا اور کیا گھر میں خدا اور ہے غربت میں خدا اور تم سامنے آتے ہو تو چھپتے ہو سوا اور پردے کی حیا اور ہے آنکھوں کی حیا اور کچھ آگ لگائے گا نئی شعلۂ رخسار کچھ رنگ دکھائے گا ترا رنگ حنا اور انسان وہ کیا جس کو نہ ہو پاس زباں کا یہ کوئی طریقہ ہے کہا اور کیا ...

    مزید پڑھیے

    ان کو حال دل پر سوز سنا کر اٹھے

    ان کو حال دل پر سوز سنا کر اٹھے اور دو چار کے گھر آگ لگا کر اٹھے تم نے پہلو میں مرے بیٹھ کے آفت ڈھائی اور اٹھے بھی تو اک حشر اٹھا کر اٹھے وعدۂ وصل سے ہے نعش پہ آنے کی امید مژدۂ قتل مرا مجھ کو سنا کر اٹھے منہ چھپانے میں تو ہے شرم و حیا کا پردہ ہاں مگر دل بھی نگہ تھا کہ چرا کر ...

    مزید پڑھیے

    گل ہوا یہ کس کی ہستی کا چراغ

    گل ہوا یہ کس کی ہستی کا چراغ مدعی کے گھر جلا گھی کا چراغ خیر سے رہتا ہے روشن نام نیک حشر تک جلتا ہے نیکی کا چراغ وہ حقیقت ہے دل افسردہ کی ٹمٹمائے جیسے سردی کا چراغ ہم سے روشن ہے تمہاری بزم یوں ناگوارا جیسے گرمی کا چراغ ہو قناعت تجھ کو تو بس ہے ظہیرؔ خانہ آرائی کو دمڑی کا چراغ

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 4