Zaheer Dehlvi

ظہیرؔ دہلوی

ظہیرؔ دہلوی کی غزل

    وہ کس پیار سے کوسنے دے رہے ہیں

    وہ کس پیار سے کوسنے دے رہے ہیں بلائیں عداوت کی ہم لے رہے ہیں پڑے ہیں وہ عشرت کدے آج ویراں جہاں یار لوگوں کے جلسے رہے ہیں برے اور اچھوں کے ہیں ذکر باقی برے ہی رہے ہیں نہ اچھے رہے ہیں پیامی سے کہتے ہیں کس نے کہا تھا وہ کیوں رات بھر یوں تڑپتے رہے ہیں زباں تھک گئی کوسنے دیتے دیتے بس ...

    مزید پڑھیے

    بگڑ کر عدو سے دکھاتے ہیں آپ

    بگڑ کر عدو سے دکھاتے ہیں آپ بناوٹ کی باتیں بناتے ہیں آپ بڑھانے کو قصے شب وصل میں فسانے عدو کے سناتے ہیں آپ کسی کو تجلی کسی کو جواب عجب کچھ لگاتے بجھاتے ہیں آپ بگڑنے کے اسباب لازم نہیں نئی بات دل سے بناتے ہیں آپ نہ آنا تھا گر آئے کیوں خواب میں مگر سوتے فتنے جگاتے ہیں آپ بندھے ...

    مزید پڑھیے

    دل گیا دل کا نشاں باقی رہا

    دل گیا دل کا نشاں باقی رہا دل کی جا درد نہاں باقی رہا کون زیر آسماں باقی رہا نیک ناموں کا نشاں باقی رہا ہو لیے دنیا کے پورے کاروبار اور اک خواب گراں باقی رہا رفتہ رفتہ چل بسے دل کے مکیں اب فقط خالی مکاں باقی رہا چل دیے سب چھوڑ کر اہل جہاں اور رہنے کو جہاں باقی رہا کارواں منزل ...

    مزید پڑھیے

    پھٹا پڑتا ہے جوبن اور جوش نوجوانی ہے (ردیف .. ن)

    پھٹا پڑتا ہے جوبن اور جوش نوجوانی ہے وہ اب تو خودبخود جامے سے باہر ہوتے جاتے ہیں نظر ہوتی ہے جتنی ان کو اپنے حسن صورت پر ستم گر بے مروت کینہ پرور ہوتے جاتے ہیں بھلا اس حسن زیبائی کا ان کے کیا ٹھکانا ہے کہ جتنے عیب ہیں دنیا میں زیور ہوتے جاتے ہیں ابھی ہے تازہ تازہ شوق خود بینی ...

    مزید پڑھیے

    ابھی سے آ گئیں نام خدا ہیں شوخیاں کیا کیا

    ابھی سے آ گئیں نام خدا ہیں شوخیاں کیا کیا مری تقدیر بن بن کر بدلتی ہے زباں کیا کیا مجھے گردش میں رکھتی ہے نگاہ دلستاں کیا کیا مری قسمت دکھاتی ہے مجھے نیرنگیاں کیا کیا نگاہوں میں حیا ہے اور حیا میں ہے نہاں کیا کیا طبیعت میں بسی ہیں خیر سے رنگینیاں کیا کیا فقط اک سادگی پر شوخیوں ...

    مزید پڑھیے

    رنگ جمنے نہ دیا بات کو چلنے نہ دیا

    رنگ جمنے نہ دیا بات کو چلنے نہ دیا کوئی پہلو مرے مطلب کا نکلنے نہ دیا کچھ سہارا بھی ہمیں روز ازل نے نہ دیا دل بدلنے نہ دیا بخت بدلنے نہ دیا کوئی ارماں ترے جلووں نے نکلنے نہ دیا ہوش آنے نہ دیا غش سے سنبھلنے نہ دیا چاہتے تھے کہ پیامی کو پتا دیں تیرا رشک نے نام ترا منہ سے نکلنے نہ ...

    مزید پڑھیے

    دل کو آزار لگا وہ کہ چھپا بھی نہ سکوں

    دل کو آزار لگا وہ کہ چھپا بھی نہ سکوں پردہ وہ آ کے پڑا ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں مدعا سامنے ان کے نہیں آتا لب تک بات بھی کیا غم دل ہے کہ سنا بھی نہ سکوں بے جگہ آنکھ لڑی دیکھیے کیا ہوتا ہے آپ جا بھی نہ سکوں ان کو بلا بھی نہ سکوں وہ دم نزع مرے بہر عیادت آئے حال کب پوچھتے ہیں جب کہ سنا ...

    مزید پڑھیے

    تلخ شکوے لب شیریں سے مزا دیتے ہیں

    تلخ شکوے لب شیریں سے مزا دیتے ہیں گھول کر شہد میں وہ زہر پلا دیتے ہیں یوں تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنا دیتے ہیں پردہ اٹھے کہ نہ اٹھے مگر اے پردہ نشیں آج ہم رسم تکلف کو اٹھا دیتے ہیں آتے جاتے نہیں کمبخت پیامی ان تک جھوٹے سچے یوں ہی پیغام سنا دیتے ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ سے ہیہات کیا جاتا رہا

    ہاتھ سے ہیہات کیا جاتا رہا مرنے جینے کا مزا جاتا رہا زندگی کا آسرا جاتا رہا ہائے جینے کا مزا جاتا رہا لے گیا سرمایۂ صبر و قرار مایہ دار اب صبر کا جاتا رہا عمر بھر کی سب کمائی لٹ گئی زیست کا برگ و نوا جاتا رہا دل اگر باقی رہا کس کام کا چین دل کا اے خدا جاتا رہا زندگانی کی حلاوت ...

    مزید پڑھیے

    کچھ شکوے گلے ہوتے کچھ طیش سوا ہوتا

    کچھ شکوے گلے ہوتے کچھ طیش سوا ہوتا قسمت میں نہ ملنا تھا ملتے بھی تو کیا ہوتا جاتے تو قلق ہوتا آتے تو خفا ہوتے ہم جاتے تو کیا ہوتا وہ آتے تو کیا ہوتا شکوؤں کا گلا کیا ہے انصاف تو کر ظالم کیا کچھ نہ کیا ہوتا گر تو میری جا ہوتا گر صلح ٹھہر جاتی سو فتنے اٹھے ہوتے اچھا ہے نہ ملنا ہی ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 3 سے 4