Zaheer Dehlvi

ظہیرؔ دہلوی

ظہیرؔ دہلوی کی غزل

    ساقیا مر کے اٹھیں گے ترے مے خانے سے

    ساقیا مر کے اٹھیں گے ترے مے خانے سے عہد و پیماں ہیں یہی زیست میں پیمانے سے تو کہاں آئی مرا درد بٹانے کے لیے اے شب ہجر نکل جا مرے غم خانے سے کون ہوتا ہے مصیبت میں کسی کا دل سوز اٹھ گئی شمع بھی جل کر مرے کاشانے سے کچھ یہی کوہ کن و قیس پہ گزری ہوگی ملتی جلتی ہے کہانی مرے افسانے ...

    مزید پڑھیے

    دل کو دارالسرور کہتے ہیں

    دل کو دارالسرور کہتے ہیں جلوہ گاہ حضور کہتے ہیں نہ کہیں باوفا مجھے منہ سے ہاں وہ دل میں ضرور کہتے ہیں وہ مجھے اور کچھ کہیں نہ کہیں شیفتہ تو ضرور کہتے ہیں اک خدائی کہا کرے قہار ہم تو اس کو غفور کہتے ہیں پی کے دیکھی بھی حضرت واعظ آپ جس کو طہور کہتے ہیں

    مزید پڑھیے

    حریف راز ہیں اے بے خبر در و دیوار

    حریف راز ہیں اے بے خبر در و دیوار کہ گوش رکھتے ہیں سب سر بہ سر در و دیوار نوید مقدم فصل بہار سن سن کر اڑیں گے شوق میں بے بال و پر در و دیوار شب فراق میں گھر مجھ کو کاٹے کھاتا ہے بنا ہے اک سگ دیوانہ ہر در و دیوار تمہارے غم نے وہ صورت مری بنائی ہے کہ رو رہے ہیں مرے حال پر در و ...

    مزید پڑھیے

    نو گرفتار قفس ہوں مجھے کچھ یاد نہیں

    نو گرفتار قفس ہوں مجھے کچھ یاد نہیں لب پہ شیون نہیں نالہ نہیں فریاد نہیں نازنیں کوئی نئی بات تو پیدا ہو کبھی ظلم میں لطف ہی کیا ہے اگر ایجاد نہیں میں بشر ہوں مرے ملنے میں برائی کیا ہے آپ کچھ حور نہیں آپ پری زاد نہیں وائے تقدیر کہ جب خوگر آزار ہوئے وہ یہ فرماتے ہیں ہم مائل بیداد ...

    مزید پڑھیے

    واں طبیعت دم تقریر بگڑ جاتی ہے

    واں طبیعت دم تقریر بگڑ جاتی ہے بات کی بات میں توقیر بگڑ جاتی ہے چونک پڑتا ہوں خوشی سے جو وہ آ جاتے ہیں خواب میں خواب کی تعبیر بگڑ جاتی ہے کچھ وہ پڑھنے میں الجھتے ہیں مرا نامۂ شوق کچھ عبارت دم تحریر بگڑ جاتی ہے چارہ گر کیا مری وحشت سے جنوں بھی ہے بتنگ روز مجھ سے مری زنجیر بگڑ ...

    مزید پڑھیے

    جہاں میں کون کہہ سکتا ہے تم کو بے وفا تم ہو

    جہاں میں کون کہہ سکتا ہے تم کو بے وفا تم ہو یہ تھوڑی وضع داری ہے کہ دشمن آشنا تم ہو تباہی سامنے موجود ہے گر آشنا تم ہو خدا حافظ ہے اس کشتی کا جس کے ناخدا تم ہو جفا جو بے مروت بے وفا ناآشنا تم ہو مگر اتنی برائی پر بھی کتنے خوش نما تم ہو بھروسا غیر کو ہوگا تمہاری آشنائی کا تم اپنی ...

    مزید پڑھیے

    بھول کر ہرگز نہ لیتے ہم زباں سے نام عشق

    بھول کر ہرگز نہ لیتے ہم زباں سے نام عشق گر نظر آتا ہمیں آغاز میں انجام عشق واے قسمت دل لگاتے ہی جدائی ہو گئی صبح ہوتے ہی ہوئی نازل بلائے شام عشق ناصح ناداں تری قسمت میں یہ وقعت کہاں خوش نصیبوں کے لیے ہے ذلت و دشنام عشق حال میرا سن کے پیغامی سے وہ کہنے لگے گر نہ تھی تاب جدائی ...

    مزید پڑھیے

    تلافی وفا کی جفا چاہتا ہوں

    تلافی وفا کی جفا چاہتا ہوں تمھیں خود یہ کہہ دو برا چاہتا ہوں کوئی مول لے تو بکا چاہتا ہوں میں صاحب سے بندہ ہوا چاہتا ہوں تمھیں چاہو مجھ کو تو کیا چاہیے پھر میں اس کے سوا اور کیا چاہتا ہوں مرا مدعا کیا سمجھتے نہیں ہو تمہیں چاہتا ہوں تو کیا چاہتا ہوں مسیحا ہو گر تم تو اپنے لیے ...

    مزید پڑھیے

    یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں (ردیف .. ے)

    یہ سب کہنے کی باتیں ہیں ہم ان کو چھوڑ بیٹھے ہیں جب آنکھیں چار ہوتی ہیں مروت آ ہی جاتی ہے وہ اپنی شوخیوں سے کوئی اب تک باز آتے ہیں ہمیشہ کچھ نہ کچھ دل میں شرارت آ ہی جاتی ہے نہ الجھو طعنۂ دشمن پہ ایسا ہو ہی جاتا ہے جہاں اخلاص ہوتا ہے شکایت آ ہی جاتی ہے لیا جب نام الفت کا بدل جاتی ...

    مزید پڑھیے

    رہتا تو ہے اس بزم میں چرچا مرے دل کا

    رہتا تو ہے اس بزم میں چرچا مرے دل کا اچھا ہے یہ اچھا ہو نہ سودا مرے دل کا ہے جوش قلق معرکہ آرا مرے دل کا ہنگامہ ہے دل پر مرے برپا مرے دل کا ہے سیر نگاہوں میں شبستان عدو کی کیا مجھ سے چھپاتے ہو تماشا مرے دل کا اک مشغلہ ٹھہری ہے تمہیں رنجش بے جا اک کھیل ہوا تم کو ستانا مرے دل کا بے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 4