شکایت
شفق کی دلہن اپنے غرفے سے کب تک مجھے دیکھ کر مسکراتی رہے گی سنہری لبادے کی زر کار کرنیں کہاں تک یوں ہی گنگناتی رہیں گی کہاں تک زمرد کے پردے پہ یہ سرخ پھولوں کے نغمے مچلتے رہیں گے کہ آخر کوئی چاند کوئی اندھیرا کسی شرق تیرہ کے در سے نکل کر ابھی اس کو پہنائے گا تیرگی کا وہ جامہ کہ اس کی ...