Yusuf Jamal

یوسف جمال

یوسف جمال کی غزل

    سر پر دکھ کا تاج سہانا لگتا ہے

    سر پر دکھ کا تاج سہانا لگتا ہے میرا چہرہ کیا شاہانا لگتا ہے جب میں کچا پھل تھا تو محفوظ تھا میں اب جو پکا تو مجھ پہ نشانہ لگتا ہے شہر دل کے خواب کی کیا تعبیر کروں کبھی نیا یہ کبھی پرانا لگتا ہے ہاتھوں میں کشکول لیے تو دے نہ صدا بہروں کا تو یہ کاشانہ لگتا ہے آئینے میں دیکھ کے یہ ...

    مزید پڑھیے

    لغزشیں تنہائیوں کی سب بتا دی جائیں گی

    لغزشیں تنہائیوں کی سب بتا دی جائیں گی رنگتیں چہروں کی اس صورت اڑا دی جائیں گی خشک پیڑوں پر نئے موسم اگانے کے لیے زرد پتوں کی یہ تحریریں مٹا دی جائیں گی قحط نیندوں کا پڑے گا چاہتوں کے کھیت میں خواب کی فصلیں اگر ساری جلا دی جائے گی ان سرابوں میں مقید مجھ سے قیدی کے لیے کیا فصیلیں ...

    مزید پڑھیے

    انہیں قید کرنے کی کوشش ہے کیسی

    انہیں قید کرنے کی کوشش ہے کیسی خلا میں صداؤں کی بندش ہے کیسی نہاں مجھ میں ہے اور میرے بدن کا لہو چاٹتی ہے جو خواہش ہے کیسی مجھے مسکرانے کی کس نے سزا دی مری ذات پر یہ نوازش ہے کیسی ملی خوشبوؤں کے جزیرے کی دعوت مجھے پھر رلانے کی سازش ہے کیسی مقدر میں ہے جب ہمارے اندھیرے نظر میں ...

    مزید پڑھیے

    زخموں کی مناجات میں پنہاں وہ اثر تھا

    زخموں کی مناجات میں پنہاں وہ اثر تھا آنکھوں سے ٹپکتا ہوا آنسو بھی گہر تھا اشکوں کی معیت میں تھے مغموم اندھیرے صدمات کی ہر سیج میں اک خوف کا گھر تھا پتے ہوں کہ پھل سب کا تھا اک اور ہی عالم حیرت ہے مگر اس پہ کہ بونا وہ شجر تھا دروازے مکانوں کے ہوئے بند سر شام کہتے ہیں مگر یہ کہ ...

    مزید پڑھیے

    سوچا کہ وا ہو سبز دریچہ جو بند تھا

    سوچا کہ وا ہو سبز دریچہ جو بند تھا پیلاہٹوں کا چہرہ بہت فکر مند تھا ہر سانس تھوکتی تھی لہو زرد رنگ کا ہر شخص اس گلی کا اذیت پسند تھا میٹھے تبسموں کو لیے سب سے بات کی خود سے کیا کلام تو لب زہر قند تھا بونا تھا وہ ضرور مگر اس کے باوجود کردار کے لحاظ سے قد کا بلند تھا میں نے فصیل شب ...

    مزید پڑھیے

    کورے کاغذ کی طرح بے نور بابوں میں رہا

    کورے کاغذ کی طرح بے نور بابوں میں رہا تیرگی کا حاشیہ بن کر کتابوں میں رہا میں اذیت ناک لمحوں کے عتابوں میں رہا درد کا قیدی بنا خانہ خرابوں میں رہا جس قدر دی جسم کو مقروض سانسوں کی زکوٰۃ کیا بتاؤں جسم اتنا ہی عذابوں میں رہا بے صفت صحرا ہوں کیوں صحرا نوردوں نے کہا ہر قدم پر جب کہ ...

    مزید پڑھیے

    سارا بدن ہے خون سے کیوں تر اسے دکھا

    سارا بدن ہے خون سے کیوں تر اسے دکھا شہ رگ کٹی ہے جس سے وہ نشتر اسے دکھا آئے گی کیسے نیند دکھا وہ ہنر اسے پھر اس کے بعد خواب کو چھو کر اسے دکھا آنکھوں سے اپنے اشک کے تاروں کو توڑ کر سوکھی ندی کے درد کا منظر اسے دکھا دکھ سکھ جو دھوپ چھاؤں کا اک کھیل ہے تو پھر سورج کے ساتھ بادلوں کے ...

    مزید پڑھیے

    ہر پیکر رعنائی نے مجھے تیری ہی یاد دلائی ہے

    ہر پیکر رعنائی نے مجھے تیری ہی یاد دلائی ہے کچھ عشق مرا ہرجائی ہے کچھ حسن ترا ہرجائی ہے ہاں سوچ سمجھ کر جان وفا میں وہ پتھر ہوں کنارے کا جو موج بھنور سے نکلی ہے اٹھ کر مجھ سے ٹکرائی ہے ٹھہراؤ ہے وضع ساحل میں طوفاں تو نہیں برپا دل میں کجلا تو چلا ہے انگارہ ایسے میں ہوا پروائی ...

    مزید پڑھیے

    ہم روایت کے سانچے میں ڈھلتے بھی ہیں

    ہم روایت کے سانچے میں ڈھلتے بھی ہیں اور طرز کہن کو بدلتے بھی ہیں جادۂ عام پر بھی ہے اپنی نظر جادۂ عام سے بچ کے چلتے بھی ہیں راہبانہ قناعت کے خوگر سہی والہانہ کبھی ہم مچلتے بھی ہیں دامن نشہ دیتے نہیں ہات سے رند گرتے بھی ہیں اور سنبھلتے بھی ہیں یوں تو اخفائے غم کا نمونہ ہیں ...

    مزید پڑھیے