ہر پیکر رعنائی نے مجھے تیری ہی یاد دلائی ہے
ہر پیکر رعنائی نے مجھے تیری ہی یاد دلائی ہے
کچھ عشق مرا ہرجائی ہے کچھ حسن ترا ہرجائی ہے
ہاں سوچ سمجھ کر جان وفا میں وہ پتھر ہوں کنارے کا
جو موج بھنور سے نکلی ہے اٹھ کر مجھ سے ٹکرائی ہے
ٹھہراؤ ہے وضع ساحل میں طوفاں تو نہیں برپا دل میں
کجلا تو چلا ہے انگارہ ایسے میں ہوا پروائی ہے
چاہت میں کسی کی جیتا ہوں صورت پہ کسی کی مرتا ہوں
یہ جینا مجھ کو بھایا ہے یہ موت مجھے راس آئی ہے
کچھ تیرا بھی ارمان رہے اور کچھ اپنا بھی دھیان رہے
اتنی تو مجھے پہچان رہے یہ وصل ہے یا تنہائی ہے
یہ لمبی رات یہ بے خوابی یہ کروٹ کروٹ بیتابی
موسم کے بسنتی چھینٹوں نے کیا آگ جگر میں لگائی ہے
اے اہل خرد ہم دیوانے جب سوئے چمن جا نکلے ہیں
کانٹوں کو سر پر رکھا ہے پھولوں سے آنکھ چرائی ہے