کیا روپ برس رہا ہے
کیا روپ برس رہا ہے ہر آئنہ ہنس رہا ہے تھا حاصل عشق اپنا جو رزق ہوس رہا ہے سنتے ہیں وہ آشیاں تھا اپنا جو قفس رہا ہے ویران ہیں سب منڈیریں جی کیسا ترس رہا ہے کچھ بھی نہیں گھر میں یوسفؔ اک حوصلہ بس رہا ہے
کیا روپ برس رہا ہے ہر آئنہ ہنس رہا ہے تھا حاصل عشق اپنا جو رزق ہوس رہا ہے سنتے ہیں وہ آشیاں تھا اپنا جو قفس رہا ہے ویران ہیں سب منڈیریں جی کیسا ترس رہا ہے کچھ بھی نہیں گھر میں یوسفؔ اک حوصلہ بس رہا ہے
خواب آئینہ کر رہی ہے دل میں جو عمر گزر رہی ہے دل میں آہنگ وجود بن کے ہر دم اک موج دگر رہی ہے دل میں ہر سانس دھواں دھواں ہے لیکن چاندی سی نکھر رہی ہے دل میں مہکی ہوئی درد کی چنبیلی کیا روشنی بھر رہی ہے دل میں بستی میں جمے رہے اندھیرے بے تاب سحر رہی ہے دل میں رہ رہ کے وصال کی ...
کتنے پیچ و تاب میں زنجیر ہونا ہے مجھے گرد میں گم خواب کی تعبیر ہونا ہے مجھے جس کی تابندہ تڑپ صدیوں میں بھی سینوں میں بھی ایک ایسے لمحے کی تفسیر ہونا ہے مجھے خستہ دم ہوتے ہوئے دیوار و در سے کیا کہوں کیسے خشت و خاک سے تعمیر ہونا ہے مجھے شہر کے معیار سے میں جو بھی ہوں جیسا بھی ...
اک بے انت سمندر تیری منزل اے دریا پھر بھی خاک اڑائیں تیرے ساحل اے دریا کتنی عمروں سے میں تیرے ساتھ سفر میں ہوں کھول اپنے اسرار کبھی تو اے دل اے دریا سینوں اور زمینوں کو نہ اگر سیراب کریں تیرا میرا ہونا ہے لا حاصل اے دریا ہم بھی پربت کاٹتے ہیں اور مٹی چاٹتے ہیں ہم بھی تیرے کنبے ...
اسی حریف کی غارت گری کا ڈر بھی تھا یہ دل کا درد مگر زاد رہ گزر بھی تھا یہ جسم و جان تری ہی عطا سہی لیکن ترے جہان میں جینا مرا ہنر بھی تھا اسی پہ شہر کی ساری ہوائیں برہم تھیں کہ اک دیا مرے گھر کی منڈیر پر بھی تھا مجھے کہیں کا نہ رکھا سفید پوشی نے میں گرد گرد اٹھا تھا تو معتبر بھی ...
ہر نظر میں ہے اثاثہ اپنا چاک در چاک ہے خیمہ اپنا کوئی پرتو ہے نہ سایہ اس کا جس کے ہونے سے ہے ہونا اپنا کس کی لو راہ سحر دیکھے گی شام کی شام ہے شعلہ اپنا لپٹے جاتے ہیں کناروں سے بھی اور دریا پہ بھی دعویٰ اپنا چھوڑ بیٹھے ہیں فقیری لیکن ابھی توڑا نہیں کاسہ اپنا در خسرو پہ چلا ہے ...
پہلے میں تیری نظر میں آیا پھر کہیں اپنی خبر میں آیا میں ترے ایک ہی پل میں ٹھہرا تو مرے شام و سحر میں آیا مجھ پہ چھائی رہیں پلکیں تیری میں کہاں سایۂ زر میں آیا ایک میں ہی تری دھن میں نکلا ایک تو ہی مرے گھر میں آیا ہم جو اک ساتھ چلے تو یوسفؔ آسماں گرد سفر میں آیا
آنکھ میں ٹھہرا ہوا سپنا بکھر بھی جائے گا رات بھر میں نیند کا نشہ اتر بھی جائے گا دن کی چمکیلی صداؤں سے گریزاں راہرو شام کی سرگوشیاں سن کر ٹھہر بھی جائے گا جسم و جاں میں جلتی بجھتی لرزشیں رہ جائیں گی وہ مرے احساس کو چھوکر گزر بھی جائے گا بے تعلق سی کرے گا گفتگو مجھ سے مگر اس کا ...