کتنے پیچ و تاب میں زنجیر ہونا ہے مجھے

کتنے پیچ و تاب میں زنجیر ہونا ہے مجھے
گرد میں گم خواب کی تعبیر ہونا ہے مجھے


جس کی تابندہ تڑپ صدیوں میں بھی سینوں میں بھی
ایک ایسے لمحے کی تفسیر ہونا ہے مجھے


خستہ دم ہوتے ہوئے دیوار و در سے کیا کہوں
کیسے خشت و خاک سے تعمیر ہونا ہے مجھے


شہر کے معیار سے میں جو بھی ہوں جیسا بھی ہوں
اپنی ہستی سے تری توقیر ہونا ہے مجھے


اک زمانے کے لیے حرف غلط ٹھہرا ہوں میں
اک زمانے کا خط تقدیر ہونا ہے مجھے


یوسفؔ اپنے درد کی صورت گری کرتے ہوئے
خود بھی لوح خاک پر تصویر ہونا ہے مجھے