Yazdani Jalandhari

یزدانی جالندھری

یزدانی جالندھری کی غزل

    صحن‌ چمن میں ہر سو پتھر

    صحن‌ چمن میں ہر سو پتھر پھول تو پھول ہے خوشبو پتھر آج اک ایک کرن پتھرائی سورج تارے جگنو پتھر پتھرائے پتھرائے چہرے آنکھیں پتھر آنسو پتھر میری جانب ہر جانب سے آئے ہیں بے قابو پتھر راہ وفا پر چلنا مشکل ہر سو کانٹے ہر سو پتھر اہل جفا سے ہاتھ ملاتے ہو گئے میرے بازو پتھر اس ...

    مزید پڑھیے

    جادۂ زیست پہ برپا ہے تماشا کیسا

    جادۂ زیست پہ برپا ہے تماشا کیسا دوست بچھڑا ہے ہر اک گام پہ کیسا کیسا دل کا آتش کدہ ویران پڑا تھا کب سے آنکھ سے بہنے لگا آگ کا دریا کیسا اس پہ تو فصل خزاں مار چکی ہے شب خوں موسم گل کے گزر جانے کا کھٹکا کیسا چاند سے چہرے نظر آنے لگے ہیں کتنے کھل گیا میری نگاہوں پہ دریچہ کیسا جس ...

    مزید پڑھیے

    نگاہ ناز کا حاصل ہے اعتبار مجھے

    نگاہ ناز کا حاصل ہے اعتبار مجھے ہوائے شوق ذرا اور بھی نکھار مجھے کبھی زباں نہ کھلی عرض مدعا کے لیے کیا ہے پاس ادب نے بھی شرمسار مجھے پرانے زخم نئے داغ ساتھ ساتھ رہے ملی تو کیسی ملی دعوت بہار مجھے پھر اہل ہوش کے نرغے میں آ گیا ہوں میں خدا کے واسطے اک بار پھر پکار مجھے بکھر رہی ...

    مزید پڑھیے

    زندہ رہنے کا وہ افسون عجب یاد نہیں

    زندہ رہنے کا وہ افسون عجب یاد نہیں میں وہ انساں ہوں جسے نام و نسب یاد نہیں میں خیالوں کے پری خانوں میں لہرایا ہوں مجھ کو بے چارگیٔ محفل شب یاد نہیں خواہشیں رستہ دکھا دیتی ہیں ورنہ یارو دل وہ ذرہ ہے جسے شہر طلب یاد نہیں گرد سی باقی ہے اب ذہن کے آئینے پر کیسے اجڑا ہے مرا شہر طرب ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی میں اکثر یہی محسوس ہوا ہے

    تنہائی میں اکثر یہی محسوس ہوا ہے جس طرح کوئی میری طرف دیکھ رہا ہے ڈھونڈا کوئی ساتھی جو کبھی دشت وفا میں اک اپنا ہی سایہ مجھے ہر بار ملا ہے سینے میں ہے محفوظ متاع غم دوراں دیباچئہ ایام مرے دل پہ لکھا ہے آہٹ سی شب غم جو تجھے دی ہے سنائی اے دل وہ ترے اپنے دھڑکنے کی صدا ہے ہو خیر ...

    مزید پڑھیے

    ملا ہے تپتا صحرا دیکھنے کو

    ملا ہے تپتا صحرا دیکھنے کو چلے تھے گھر سے دریا دیکھنے کو چلو اپنا ہی منظر آپ دیکھیں کہاں جائیں تماشا دیکھنے کو سر مقتل کسے لایا گیا ہے چلی آتی ہے دنیا دیکھنے کو فسردہ پھول اڑتے زرد پتے چمن میں رہ گیا کیا دیکھنے کو ملی ہے مختصر سی فرصت دید تماشا گاہ دنیا دیکھنے کو چراغ رہ گزر ...

    مزید پڑھیے

    اک خوشی کے لیے ہیں کتنے غم

    اک خوشی کے لیے ہیں کتنے غم مبتلائے صد آرزو ہیں ہم دل بھی لوح و قلم کا ہمسر ہے داستانیں ہیں کتنی دل پہ رقم عظمت رفتگاں ہے نظروں میں اپنے ماضی کو ڈھونڈتے ہیں ہم پارہ پارہ ہے خود جنوں لیکن فکر انساں اسی سے ہے محکم بھیگی بھیگی ہے ہر کرن ان کی ہے ستاروں کی آنکھ بھی پر نم یوں نہ ...

    مزید پڑھیے

    لبوں تک آیا زباں سے مگر کہا نہ گیا

    لبوں تک آیا زباں سے مگر کہا نہ گیا فسانہ درد کا المختصر کہا نہ گیا حریم ناز میں کیا بات تھی جو راز رہی وہ حرف کیا تھا جو بار دگر کہا نہ گیا یہ حادثہ بھی عجب ہے کہ تیرے غم کے سوا کسی بھی غم کو غم معتبر کہا نہ گیا نفس نفس میں تھا احساس خانہ ویرانی خرابۂ غم ہستی کو گھر کہا نہ ...

    مزید پڑھیے

    جلوہ افروز ہے کعبہ کے اجالوں کی طرح

    جلوہ افروز ہے کعبہ کے اجالوں کی طرح دل کی تعمیر کہ کل تک تھی شوالوں کی طرح عقل وارفتہ کے بے نور بیابانوں میں ہم بھٹکتے رہے آوارہ خیالوں کی طرح ہم کہ اس بزم میں ہیں سایۂ غم کی صورت کون دیکھے گا ہمیں زہرہ جمالوں کی طرح ہاتھ بڑھتا نہیں رندوں کا ہماری جانب ہم خرابات میں ہیں خالی ...

    مزید پڑھیے

    سورج کے ساتھ ساتھ ابھارے گئے ہیں ہم

    سورج کے ساتھ ساتھ ابھارے گئے ہیں ہم تاریکیوں میں پھر بھی اتارے گئے ہیں ہم راس آ سکی نہ ہم کو ہوا تیرے شہر کی یوں تو قدم قدم پہ سنوارے گئے ہیں ہم کچھ قہقہوں کے ابر رواں نے دیا نکھار کچھ غم کی دھوپ سے بھی نکھارے گئے ہیں ہم ساحل سے رابطہ ہیں نہیں ٹوٹتا کبھی کیسے سمندروں میں اتارے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2