یٰسین افضال کی غزل

    پلکوں پہ رکا قطرۂ‌ مضطر کی طرح ہوں

    پلکوں پہ رکا قطرۂ‌ مضطر کی طرح ہوں باہر سے بھی بے چین میں اندر کی طرح ہوں باہر سے مرے جسم کی دیوار کھڑی ہے اندر سے میں اک ٹوٹے ہوئے گھر کی طرح ہوں نظروں سے گرا دو کہ مجھے دیوتا مانو پتھر کے تراشے ہوئے پیکر کی طرح ہوں چھائی ہیں مرے سر پہ سیہ پوش گھٹائیں میں صبح میں بھی شام کے ...

    مزید پڑھیے

    ریت کے اک شہر میں آباد ہیں در در کے لوگ

    ریت کے اک شہر میں آباد ہیں در در کے لوگ بے زمیں بے آسماں بے پاؤں کے بے سر کے لوگ میرا گھائل جسم ہے میری رہائش کا پتہ میں جہاں رہتا ہوں رہتے ہیں وہاں پتھر کے لوگ ایک اک لمحہ ہے قطرہ زندگی کے خون کا عافیت کا سانس بھی لیتے ہیں تو ڈر ڈر کے لوگ اور دیواروں سے دیواریں نکلتی ہیں ...

    مزید پڑھیے

    بارش رکی وباؤں کا بادل بھی چھٹ گیا

    بارش رکی وباؤں کا بادل بھی چھٹ گیا ایسی چلیں ہوائیں کہ موسم پلٹ گیا پتھر پہ گر کے آئینہ ٹکڑوں میں بٹ گیا کتنا مرے وجود کا پیکر سمٹ گیا کٹتا نہیں ہے سرد و سیہ رات کا پہاڑ سورج تھا سخت دھوپ تھی دن پھر بھی کٹ گیا چھالیں شجر شجر سے اترنے کو آ گئیں بوسیدہ پیرہن ہوا اتنا کہ پھٹ ...

    مزید پڑھیے

    ذہن کا کچھ منتشر تو حال کا خستہ رہا

    ذہن کا کچھ منتشر تو حال کا خستہ رہا کتنا میری ذات سے وہ شخص وابستہ رہا صبح کاذب روشنی کے جال میں آنے لگی سیم گوں سورج اجالے پر کمر بستہ رہا دیکھنے میں کچھ ہوں میں محسوس کرنے میں ہوں کچھ چشم بینا پر مرا یہ راز سربستہ رہا اپنے زنداں سے نکلنا اپنی طاقت میں نہیں ہر بشر اپنے لیے ...

    مزید پڑھیے

    زخم میرے دل پہ اک ایسا لگا

    زخم میرے دل پہ اک ایسا لگا اپنی جاں کا روح کو دھڑکا لگا اس کا چہرہ بھی جو اوروں سا لگا آسماں پہ چاند مٹی کا لگا دیکھتا کیا کیا کنار آب جو خود میں اپنے آپ کو الٹا لگا خود نمائی کے بھرے اک شہر میں اپنے قد سے ہر کوئی اونچا لگا روشنی دل کی اچانک گل ہوئی خود کو تھوڑی دیر میں اندھا ...

    مزید پڑھیے