پلکوں پہ رکا قطرۂ مضطر کی طرح ہوں
پلکوں پہ رکا قطرۂ مضطر کی طرح ہوں باہر سے بھی بے چین میں اندر کی طرح ہوں باہر سے مرے جسم کی دیوار کھڑی ہے اندر سے میں اک ٹوٹے ہوئے گھر کی طرح ہوں نظروں سے گرا دو کہ مجھے دیوتا مانو پتھر کے تراشے ہوئے پیکر کی طرح ہوں چھائی ہیں مرے سر پہ سیہ پوش گھٹائیں میں صبح میں بھی شام کے ...