Wasif Farooqi

واصف فاروقی

واصف فاروقی کی غزل

    کب کہاں ہم نے کہ معمار غزل ہم بھی ہیں

    کب کہاں ہم نے کہ معمار غزل ہم بھی ہیں ہاں سنبھالے ہوئے مینار غزل ہم بھی ہیں غالبؔ و میرؔ شہنشاہ سخن ہیں لیکن اپنے خطے میں زمیندار غزل ہم بھی ہیں ہم نے بھی خون جگر دے کے سنوارا ہے اسے صاحبو غازۂ رخسار غزل ہم بھی ہیں ہم سمجھتے ہیں غزل کیسے کہی جاتی ہے واقف عظمت و معیار غزل ہم بھی ...

    مزید پڑھیے

    ذہن اور دل میں عجب جنگ ہوئی ہے اس بار

    ذہن اور دل میں عجب جنگ ہوئی ہے اس بار زندگی موم سے پھر سنگ ہوئی ہے اس بار تیری دنیا جسے حیرت سے سبھی دیکھتے ہیں دیکھ کر مجھ کو بہت دنگ ہوئی ہے اس بار مجھ کو بدلاؤ نظر آیا ہے خود میں بھی بہت ہر ادا اس کی بھی بے ڈھنگ ہوئی ہے اس بار میں جسے عشق کی معراج سمجھ بیٹھا تھا وہ تپسیا بھی ...

    مزید پڑھیے

    بس ادب کی اسی دستار سے پہچانا جاؤں

    بس ادب کی اسی دستار سے پہچانا جاؤں اے غزل میں ترے معیار سے پہچانا جاؤں دولت نام و نسب مجھ کو بھی حاصل ہے مگر چاہتا ہوں کہ میں کردار سے پہچانا جاؤں میری قیمت بھی کوئی آ کے لگائے اک روز اور میں گرمئ بازار سے پہچانا جاؤں مجھ سے طوفان الجھنے کی جسارت نہ کریں میں اگر عزم کی پتوار سے ...

    مزید پڑھیے

    خیال و فکر کے کچھ زاویے تلاش کرو

    خیال و فکر کے کچھ زاویے تلاش کرو غزل کہو تو نئے قافیے تلاش کرو جو طاق طاق بھڑکتے ہیں ان کو گل کر دو اجالے بخشنے والے دیے تلاش کرو کتاب دل کی عبارت میں ہو اگر ابہام تو پھر جبیں پہ لکھے حاشیے تلاش کرو ٹھہر سکے گی نہ شام و سحر کی یہ گردش قیام گاہ نہ اپنے لیے تلاش کرو غموں کی شان ...

    مزید پڑھیے

    بغیر شبدوں کی ایک رچنا سنا رہی ہیں تمہاری آنکھیں

    بغیر شبدوں کی ایک رچنا سنا رہی ہیں تمہاری آنکھیں تمہارے سینے میں کیا تڑپ ہے بتا رہی ہیں تمہاری آنکھیں نہیں ہے یہ کوئی گیت میرا یہ کوئی میری غزل نہیں ہے وہی میں کاغذ پہ لکھ رہا ہوں جو گا رہی ہیں تمہاری آنکھیں مری محبت کے آئنے سے تم اپنی آنکھیں چرا رہی ہو مگر مرے دل کو چپکے چپکے ...

    مزید پڑھیے

    ہر رسم ہر رواج سے تنگ آ چکے ہیں اب

    ہر رسم ہر رواج سے تنگ آ چکے ہیں اب ہم اپنے ہی سماج سے تنگ آ چکے ہیں اب کچھ ہم سے زندگی کے تقاضے بھی گھٹ گئے کچھ ہم بھی کام کاج سے تنگ آ چکے ہیں اب چلئے کہ دیکھتے ہیں کسی اور کی طرف ہم اپنے ہم مزاج سے تنگ آ چکے ہیں اب ہم کو مرض وہ ہے کہ پریشان ہیں طبیب اور ہم بھی ہر علاج سے تنگ آ چکے ...

    مزید پڑھیے

    جو اپنے خواب کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں

    جو اپنے خواب کی تکمیل کرنا چاہتے ہیں مرے مزاج کو تبدیل کرنا چاہتے ہیں کوئی سنے نہ سنے پھر بھی ہر صدا اپنی ہم ان فضاؤں میں تحلیل کرنا چاہتے ہیں یہ چاہتے ہیں کہ ہر اشک اک چراغ بنے ہم اپنی آنکھوں کو قندیل کرنا چاہتے ہیں وہ جن کی کوئی بھی تاویل معتبر نہ ہوئی وہ پیش پھر نئی تاویل ...

    مزید پڑھیے