بس ادب کی اسی دستار سے پہچانا جاؤں
بس ادب کی اسی دستار سے پہچانا جاؤں
اے غزل میں ترے معیار سے پہچانا جاؤں
دولت نام و نسب مجھ کو بھی حاصل ہے مگر
چاہتا ہوں کہ میں کردار سے پہچانا جاؤں
میری قیمت بھی کوئی آ کے لگائے اک روز
اور میں گرمئ بازار سے پہچانا جاؤں
مجھ سے طوفان الجھنے کی جسارت نہ کریں
میں اگر عزم کی پتوار سے پہچانا جاؤں
ظلم کے ہاتھ پہ بیعت کا تصور ہو تو میں
صبر اور جرأت انکار سے پہچانا جاؤں
میری دنیا مجھے سمجھے کہ میں کیا ہوں واصفؔ
جس میں ہوں میں اسی سنسار سے پہچانا جاؤں